دہشتگردی

خیبر ایجنسی کی تحصیل نے ہوائی فائرنگ، آتش بازی پر پابندی لگا دی

دانش یوسف زئی

بارہ ستمبر کو لڑکے، خیبر ایجنسی میں آتش بازی سے کھیل رہے ہیں۔ قبائلی ایجنسی میں حکام عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لیے ایسے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

بارہ ستمبر کو لڑکے، خیبر ایجنسی میں آتش بازی سے کھیل رہے ہیں۔ قبائلی ایجنسی میں حکام عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لیے ایسے خطرناک ہتھیاروں پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

خیبر ایجنسی - لنڈی کوتل، خیبر ایجنسی میں بزرگ اور ملک، امید کرتے ہیں کہ کچھ عام سرگرمیوں پر پابندی سے سیکورٹی بہتر ہو جائے گی۔

بزرگ اور ملک، لنڈی کوتل کی سیاسی انتظامیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچے جس کے تحت ہوائی فائرنگ، جوئے، آتش بازی اور شراب پر پابندی لگائی گئی ہے۔

جرگے سے معاہدہ طے پایا

یہ معاہدہ انیس ستمبر کو لنڈی کوتل میں منعقد ہونے والے بڑے جرگے سے سامنے آیا۔ شنواری، ذکاخیل اور شلمانی قبائل سے تعلق رکھنے والے بزرگوں اور لنڈی کوتل انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے حکام نے وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے طریقوں پر بات چیت کی۔

اس پابندی کی سماجی اہمیت ہے کیونکہ سماجی طور پر نافذ کی جانے والی پابندیوں پر عمل کرنا قدامت پسند قبائلی پٹی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

جرگہ میں تقریریں کرنے والے بہت سے بزرگوں نے انتہاپسندی سے مقابلہ کرنے کی کوششوں پر سیاسی انتظامیہ کی تعریف کی اور دوسرے تمام قبائل سے مطالبہ کیا کہ وہ سماجی برائیوں سے جنگ کریں۔ مقررین نے کہا کہ ایسا کرنے سے علاقے میں دیرپا امن قائم ہو جائے گا۔

ذکاخیل علاقے کے شہری سراج الدین آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ غیر اخلاقی سرگرمیاں جو کہ غیرقانونی بن گئی ہیں نے تشدد اور بہت سی دوسری برائیوں کو جنم دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی سرگرمیوں سے دہشت گردوں کے لیے علاقے میں امن کو متاثر کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بندوقیں اور چھروں والی بندوقیں بہت آسانی سے دستیاب ہیں جس سے نہ ختم ہونے والے مسائل نے جنم لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہتھیاروں تک آسان رسائی نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس نے اس کے کچھ دوستوں کو متاثر کیا کہ وہ عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، چھروں والی کھلونا بندوقوں سے بہت سے مقامی بچے زخمی ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی بینائی بھی چلی گئی ہے۔

ہوائی فائرنگ پر پابندی کا مقصد، تقریبات کے دوران اکثر پیش آنے والے حادثات کا خاتمہ کرنا ہے جو اس وقت پیش آتے ہیں جب گولیاں زمین پر آ کر کسی کو ہلاک یا زخمی کر دیتی ہیں۔

مقامی صحافی علی شینواری نے کہا کہ "بہت سے نوجوان تقریبات کے دوران ہوائی فائرنگ کرتے ہیں۔ ان کے ہم عصروں کے گروہوں میں اصلی ہتھیاروں سے فائرنگ کرنا اکثر طاقت اور برتری کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ حادثاتی طور پر ہلاک ہو گئے۔ بہت سے اس وقت بھی ہلاک ہوئے جب انہوں نے ایک دوسرے پر گولیاں چلا دیں"۔

دیگر ناپسندیدہ نتائج

کچھ بزرگوں نے جرگہ میں کہا کہ آتش بازی اور اس کو بنانے والی صنعت مکمل طور پر غیرنقصان دہ چیز نہیں ہے"۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ آتش بازی میں گن پاوڈر ہوتا ہے جسے نکال کر دہشت گرد گھریلو ساختہ بم (آئی ای ڈیز) اور دوسرے بم بناتے ہیں۔

لنڈی کوتل کے سیاسی تحصیل دار ارشاد علی، نے کہا کہ ان سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا مشترکہ فیصلہ، قبائلی بزرگوں کی طرف سے سیاسی انتظامیہ کو بار بار کیے جانے والے مطالبات کے بعد لگایا گیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس پابندی کا علاقے میں امن و امان کی صورت حال پر مثبت اثر ہو گا۔ ہمیں مقامی بزرگوں کی مدد حاصل ہے"۔

شرکاء نے اتفاق کیا کہ جوئے اور شراب پر پابندی سے اخلاقی طور پر خراب، ان قبائلی ارکان کی تعداد کم ہو جائے گی جو دوسرے جرائم جیسے کہ انتہاپسندی میں شریک ہونے پر غور کرنے لگتے ہیں۔

ارشاد علی نے کہا کہ لنڈی کوتل کے علاقوں میں بہت سے جوئے خانے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے قبائلی بزرگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے علاقوں میں ان افراد کی شناخت کریں جو ایسے گناہوں کے پیچھے ہیں۔

صحافی علی شینواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ انتہاپسندی کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش میں، لنڈی کوتل کے بزرگوں اور حکام نے مسجدوں اور عوامی جگہوں پر لاوڈ اسپیکروں پر پابندی لگانے پر اتفاق کیا ہے جو ہجوم کو مشتعل کرنے میں مفید ہوتا ہے۔

جمع ہونے والے اسپیکروں جیسے کہ رازق، ملک خیال محمد شینواری اور گراہ بچہ شلمانی نے سیکورٹی افواج اور لنڈی کوتل کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کا عہد کیا تاکہ علاقے سے تمام سماجی برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مقامی قبائلی بزرگ، ملک عبدل رازق نے سماج مخالف عناصر کے خلاف جنگ میں بزرگوں کو شامل کرنے پر لنڈی کوتل کی انتظامیہ کی تعریف کی۔

ایک اور بزرگ، گراہ بچہ شلمانی نے فحاشی اور عریانی کے خلاف حکام کی مہم میں ان کا ساتھ دینے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

پابندی کے پیچھے سچائی

اس پابندی کو معنی خیز بنانے کے لیے، حکام اس کی خلاف ورزیوں پر سخت سزائیں دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

علی شینواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جو کوئی پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اسے 50,000 سے 100,000 روپے (478 سے 956 امریکی ڈالر) کا جرمانہ اور قید کی سزا ہو گی۔ اس فیصلے کو سب نے خوش آمدید کہا ہے جن میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو تعلیم کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پشتون ثقافت دل سے امن سے محبت کرنے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں سوویت یونین کے دور کے دوران اسلحے کی ثقافت نے جڑیں پکڑ لیں۔ اس کو بعد میں ہونے والی افغان جنگ اور علاقے میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے طاقت ملی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500