سلامتی

چہار طرفہ میکانزم کی عسکریت پسندی کے خلاف مشترکہ کاروائی

محمّد شکیل

اگست میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر، سرتاج عزیز (دائیں) اور افغان وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربّانی سیکیورٹی امور پر بات چیت کرنے کے لیے اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے تاجکستان اور چین کے ساتھ چہار طرفہ معاہدوں میں بھی شریک ہیں۔ [بشکریہ پاکستان پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

اگست میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر، سرتاج عزیز (دائیں) اور افغان وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربّانی سیکیورٹی امور پر بات چیت کرنے کے لیے اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے تاجکستان اور چین کے ساتھ چہار طرفہ معاہدوں میں بھی شریک ہیں۔ [بشکریہ پاکستان پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

پشاور — پاکستان، افغانستان اور تاجکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ اور ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) کے بھیانک خدشے سے لڑنے کے لیے ایک عسکری اتحاد اور تعاون کا میکانزم تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔

4 اگست کو جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیہ کے مطابق، انسدادِ دہشتگردی کے لیے چہارطرفہ تعاون اور ہم آہنگی (کیو سی سی ایم) کے چاروں فریقین نے ”اتفاق کیا کہ دہشتگردی سے علاقائی استحکام کو شدید خدشات لاحق ہیں۔“

ان ممالک نے اس سلسلہ میں اپنی افواج کی جانب سے کوششوں کا اعتراف کیا اور انسدادِ دہشتگردی کی صورتِ حال، انٹیلی جنس کے تبادلہ، استعداد پیدا کرنے اور عملہ کی تربیت سمیت متعدد معاملات میں تعاون کو بڑھانے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر اتفاق کیا۔

ایک سنگِ میل کامیابی

اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف مارڈرن لینگویجز کی اسسٹنٹ پروفیسر ثروت رؤوف نے کہا کہ معاہدہ کے فریقین ”شدت پسندی، دہشتگردی، اور علیحدگی پسندی سمیت متعدد محاذوں پر بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اپنے ممالک اور اپنے متعلقہ خطوں میں دہشتگردی سے لڑنے کے لیے پہلے سے میکانزم اور ادارے موجود ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ کیو سی سی ایم دہشتگردی کو کچلنے کی جاری کوششوں میں ایک اضافہ ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مربوط اور باہمی تعاون کی کاروائیوں کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ عدم استحکام علاقائی امن کو بآسانی ابتر اور منتشر کر سکتا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”انسدادِ دہشتگردی کہنا آسان ہے، لیکن یہ امن کی تعلیم، مساوات اور احترام سمیت متعدد امور پر مشتمل ہے۔“

انہوں نے کہا، ”جہاں تک پاکستان میں سیکیورٹی صورتِ حال اور اس سے ملحقہ امور کا تعلق ہے، یہ معاہدہ انسدادِ دہشتگردی میں ایک سنگِ میل کامیابی ہے۔“

آئی ایس آئی ایل کے خلاف ایک متحدہ محاذ

ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اور پاکستان کے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات کے سابق سیکریٹری سیکیورٹی برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا، ”کیو سی سی ایم جیسا تذویری اتحاد حکمتِ عملی وضع کرنے اور عسکریت پسندی کے خدشہ کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے اور آئی ایس آئی ایل کے کئی گنا بڑے خدشہ کی جانب سے فریق ممالک میں یورش بپا کیے جانے کو روکنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی کے حملے سے صرف اسی صورت بچا جا سکتا ہے کہ تمام فریقین اپنے اختلافات ختم کریں اور اپنی سرزمین سے شدت پسندی کے خاتمہ کے وسیع تر مقصد کے لیے متحد ہو جائیں۔

انہوں نے ان کے سیاسی-جغرافیائی محلِّ وقوع اور قریبی سرحدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”[فریقین کے] مشترکہ مقاصد اور مستقبل کی بقاء ایک سے زائد محاذوں پر اپنے قریبی سرزمین سے تعاون کرنے میں ہے۔“

شاہ نے کہا کہ عسکریت پسندی سے متاثرہ ممالک اس امر کا ادراک کر چکے ہیں کہ شدت پسندی اور بنیاد پرستی کی شیطانی قوتیں باہمی تعاون پر مشتمل ایک مشترکہ حکمتِ عملی سے ہی اکھاڑ پھینکی جا سکتی ہیں۔

اتحاد کی تشکیل

جامعہ پشاور میں ادارۂ علومِ امن و تنازعہ کے ڈائریکٹر جمیل احمد چترالی نے کہا، ”معاہدے، اتحاد اور میثاق ایسے مقصد سے بنائے جاتے ہیں جس کا حصول کسی ملک کے لیے ایک وجودِ واحد کے طور پر ناممکن ہو۔“

اگرچہ چترالی نے کہا کہ کیو سی سی ایم کی کامیابی سے متعلق کوئی مخصوص بات کرنا قبل از وقت ہو گا، تاہم، تمام اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ”شدت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان اور افغانستان کی ضروریات کے ساتھ اپنی مطابقت کے مرہونِ منٓت دونوں ممالک میں عسکریت پسندی کے مسئلہ سے نمٹے گا۔“

انہوں نے کہا، ”کسی حکمتِ عملی اور میکانزم کی کامیابی ایک مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی اور کام میں [فریق ارکان کے] ایک دوسرے کے ہمراہ رہنے پر منحصر ہے۔“

انہوں نے کہا، ”کیو سی سی ایم میں انسدادِ دہشتگردی کے لیے انٹیلی جنس کے تبادلہ اور باہمی تعاون کو معقول اہمیت دی گئی، جو کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے محاذی ممالک کے طور پر جنگ کی ضرب برداشت کرنے والے پاکستان اور افغانستان، جو اپنی بے خوف کوششوں کے باوجود ابھی تک آفت کا سامنا کر رہے ہیں، کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔“

جامعہ پشاور سے بین الاقوامی تعلقات میں پوسٹ گریجوایٹ سند کے حامل حسیب سلیمان نے کہا، ”گزشتہ دہائی میں شروع ہونے والے عالمگیریت کے عمل نے ان ممالک کی ترجیحات کی تعریفِ نو کر دی ہے جو اب سلامتی سے متعلق امور پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لیے مجبور ہونے کے احساس کے زیرِ اثر ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میثاق اور معاہدے کرنا قومی مقاصد سے اخذ ہونے والے لوازم کا نتیجہ ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ کیو سی سی ایم کے ذریعے ممالک نے ”ایک مربوط اور متحدہ طریق پر عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کرنے پر اتفاق کیا ہے، امید ہے کہ [اس سے] اس خدشہ کے خلاف ان کی کوششوں میں تیزی آنے سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500