دہشتگردی

پاکستان داعش کو بالکل برداشت نہیں کرے گا

آمنہ ناصر جمال

اٹھائیس اگست کو کراچی میں رینجرز کو اس اسلحے کے ساتھ دکھایا گیا ہے جو انہوں نے عسکریت پسندوں سے پکڑا ہے۔ ]آمنہ ناصر جمال[

اٹھائیس اگست کو کراچی میں رینجرز کو اس اسلحے کے ساتھ دکھایا گیا ہے جو انہوں نے عسکریت پسندوں سے پکڑا ہے۔ ]آمنہ ناصر جمال[

اسلام آباد - پاکستان کے سیکورٹی حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کو پاکستان میں پنپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے۔

فوج کے ترجمان لیفٹینٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ "پاکستان میں داعش کے عسکریت پسندوں کے لیے کوئی قبولیت نہیں ہے"۔

داعش کے خلاف نفرت

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "لوگ دہشت گردی سے تنگ آ چکے ہیں۔ پاکستان میں داعش کی کوئی منظم موجودگی نہیں ہے اور اگر گروہ کی طرف سے کوئی واضح قدم سامنے آیا تو انہیں شکست دے دی جائے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں سے جنگ کا عزم رکھتے ہیں"۔

سیکورٹی کے ایک تجزیہ کار اور اسلام آباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے ایک ڈائریکٹر محمد امیر رانا نے کہا کہ داعش کی طرف سے اپنے لڑاکوں کو پاکستان لانے کی کسی بھی کوشش کو شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "شام اور عرا ق کے برعکس داعش کو غیر ملکیوں کو پاکستان میں لڑنے پر مجبور کرنا دشوار ہو گا۔ بہت سے غیر ملکی لڑاکے حالیہ عسکری مہم (جو کہ جون 2014) میں شروع ہوئی تھی، سے بچنے کے لیے یا مشرق وسطی کی دوسری جنگوں میں شامل ہونے کے لیے پاکستان سے فرار ہو گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش جنوبی ایشیاء میں نئے رنگروٹوں کو بھرتی کرنے کے لیے کسی کرشمہ ساز قیادت کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے۔ تجربہ کار قیادت کی غیرموجودگی میں، پاکستان میں داعش کامیاب ہونے اور اس کے علاقے پر حکمرانی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی"۔

اگرچہ داعش کی عراق، شام اور لیبیا میں جنگ نے پاکستان میں کچھ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو متاثر کیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں داعش میں شامل ہو جائیں مگر پاکستان اور افغانستان میں سیکورٹی افواج سے جنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی اکثریت کا تعلق داعش سے نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی کی طرف سے مسترد کیا جانا

یہاں تک کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے گروہ بھی داعش کو مسترد کر رہے ہیں۔

جماعت الاحرار کے راہنما عمر خالد خورسانی نے ایک آڈیو بیان میں، جس میں ان کے گروہ نے نو اگست کو ہونے والے اس خودکش دھماکے کی ذمہ داری لی تھی جس میں کوئٹہ کے ہسپتال میں وکلاء اور صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، میں کہا کہ "ہماری تحریک کا داعش اور القاعدہ سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے"۔ ان دھماکوں میں ستر افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان کے مطابق، پاکستان میں دو فرقہ ورانہ عسکری گروہ، لشکرِ جھنگوی اور سپاہ صحابہ کا داعش سے تعلق ہے اور وہ پاکستان سے لوگوں کو باقاعدگی سے بھرتی کرتے ہیں اور انہیں شام میں جنگ کرنے کے لیے بھیجتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "افغانستان پاکستان کے علاقے میں داعش کی پہنچ کا پہلا نشان 2014 کے آغاز میں سامنے آیا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے سوشل میڈیا، سکائپ اور سائبر سپیس کو استعمال کرتے ہوئے لڑاکوں کو بھرتی کیا اور مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھ آن لائن بات چیت کی"۔

اس کے علاوہ، سیکورٹی کے تجزیہ کار داعش کے پاکستان میں قدم جمانے کا کوئی ثبوت نہیں پاتے ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی دفاعی تجزیہ نگار اور عسکری سائنس دان عائشہ صدیقہ نے کہا کہ "پاکستان کو داعش سے بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ داعش پاکستان اور افغانستان میں پھیلنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ شام اور عراق میں اس کا علاقہ کم ہوتا جا رہا ہے مگر اسے مقامی عسکریت پسندوں سے نظریاتی اختلافات اور مقابلے کا سامنا ہے۔

انہوں نے یہ اضافہ کرتے ہوئے کہ ٹی ٹی پی کے تمام راہنما داعش کے خلاف نہیں ہیں، کہا کہ "ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈروں نے داعش سے فاصلہ رکھا ہوا ہے۔ دوسرے وہ پاکستان کو داعش کی طرف سے کہی جانے والی ولائت خرسان کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ ایک وسیع علاقہ ہے جس میں افغانستان اور وسطی ایشیاء کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "داعش زیادہ تر طالبان تحریک کے بد دل ہو جانے والے ارکان کو متوجہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ افغانستان میں معصول نوجوانوں کو شکار کرتی ہے کیونکہ وہاں بڑے پیمانے پر غربت اور بے روزگاری موجود ہے"۔

انہوں نے کہا کہ مگر پاکستان میں داعش کو "ابھی تک زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے کیونکہ تمام عسکریت پسند گروہوں میں فرقہ ورانہ تضادات موجود ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Pal army zindabad

جواب