پشاور -- قانون کے نفاذ کے موجودہ اور خواہش مند پیشہ وروں کے پاس جلد ہی یونیورسٹی آف پشاور (یو او پی) میں ادارہ برائے جرمیات و فرنزک سائنس میں اپنی مہارت کو چمکانے کا موقع ہو گا۔
خیبرپختونخوا (کے پی) حکام نے جرم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مؤثر، جدید سائنسی ذرائع کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ادارے کے قیام کی منظوری دی ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور کے وائس چانسلر محمد رسول جان نے 10 اگست کو ایک بیان میں کہا، "ادارہ برائے جرمیات و فرنزک سائنس کے قیام کا مقصد جرم اور اس کی تکنیکوں کی رسمی تعلیم دیتے ہوئے ہمارے معاشرے کو محفوظ بنانا ہے جس کے ذریعے مجرموں کو مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔"
جان نے کہا کہ یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل نے ستمبر 2014 میں ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن یہ جون 2016 تک نہ بن سکا، جب صوبائی حکومت نے 200 ملین روپے (2 ملین ڈالر) مختص کیے، جس سے کام شروع ہوا۔
جرمیات میں ماسٹرز
یونیورسٹی آف پشاور میں میڈیا اور پروٹوکول افسر، اختر امین نے کہا، "یونیورسٹی آف پشاور ستمبر کے آخر میں جرمیات میں ماسٹر ڈگری کے کورس کے لیے داخلوں کا اعلان کر رہی ہے اور کلاسیں وسط اکتوبر میں شروع ہونی متوقع ہیں۔"
اختر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ادارہ برائے جرمیات و فرنزک سائنس دو سالہ ماسٹرز ڈگری اور ساتھ ہی ساتھ پیشہ وروں کے لیے پولیس، قانون، انسانی حقوق وغیر میں شارٹ ڈپلومہ کورسز کی پیشکش کرے گا۔"
ادارہ یونیورسٹی کے ادارہ برائے مطالعات امن و تنازعات (آئی پی سی ایس) کے ساتھ الحاق شدہ ہے جس نے 2015 میں کام کرنا شروع کیا تھا اور تنازعات کے حل میں انڈرگریجوایٹ اور گریجوایٹ پروگراموں کی پیشکش کرتا ہے۔
اختر نے کہا، "جرمیات میں ڈگری طلباء و طالبات کو جرم کی ابتداء، اس کی مختلف شکلوں، فوجداری انصاف کے عمل، انسانی حقوق اور تحقیق کے طریقۂ کار کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے تیار کی گئی ہے۔"
سماجی کاموں اور شعبۂ عمرانیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نئے ادارے میں کورسز پڑھائیں گے، اور وہ پہلے ہی آئی پی سی ایس میں تدریسی کاموں میں تعاون کر رہے ہیں۔
اختر نے مزید کہا، "شروع میں، کلاسیں کسی بھی دستیاب عمارت میں لگیں گی اور بعد میں یونیورسٹی آف پشاور کے حدود میں ایک مکمل ادارہ تعمیر کیا جائے گا۔"
انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے جدید حل
انسدادِ تعصب پسندی کے ایک محقق پروفیسر محمد ظفر جو یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ عمرانیات میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں، نے کہا، "یہ ایک بہت قابلِ تحسین اقدام ہے اور جرم کے وقوع پذیر ہونے، اس کی وجوہات اور اس عفریت پر قابو پانے کے لیے اقدامات پر تعلیم دینے کے آغاز کی شدید ضرورت تھی۔"
ظفر نے کہا کہ تعصب پسندی اور جرم کی شرح میں اضافے کا، خصوصاً پاکستانی نوجوانوں میں، خطرناک رجحان تشدد اور اسے روکنے کے طریقوں کے تعین کے لیے جدید حلوں کا متقاضی ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جرم پر گہری تحقیق اور مقامی روایات اور علاقے کے لوگوں کے لیے قابلِ قبول دونوں کے مطابق ایک ثقافتی طور پر حساس رجوع کی حکمتِ عملی کا خاکہ بنانے کی اشد ضرورت تھی۔"
انہوں نے کہا، "عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ صرف فوجی آپریشنوں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے معاشرے میں وجوہات کو کھوجنے اور تعصب پسندی اور فساد پھیلانے والے اسباب سے نمٹنے کے لیے ایک اچھی تحقیقی ملک میں ہی تیار کردہ پالیسی کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ادارے برائے جرمیات و فارنسک سائنس طلباء و طالبات اور پیشہ وروں کے لیے جرائم کی چھان بین، پیشہ وری اور اخلاقیات میں سائنس کے اطلاق کے بارے میں جدید ترین علم حاصل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔
آئی پی سی ایس کے ڈائریکٹر محمد جمیل نے کہا، "جرم کی نوعیت بالکل ہی بدل چکی ہے، جبکہ [پاکستان کا] فوجداری انصاف کا نظام پرانا ہے اور اسے گواہوں اور فرنزک ثبوت کی قلت کی وجہ سے، مجرموں -- خصوصاً عسکریت پسندوں -- کو سزا دلوانے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔ "
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس چیلنج پر پورا اترنے کے لیے، ہمارے نظامِ انصاف میں تبدیلیاں لانے کے لیے ایک خصوصی اور رسمی تعلیم ضروری ہے۔"
انہوں نے کہا، "ادارہ برائے جرمیات و فرنزک سائنس جرم پر قابو پانے کے لیے جدید ترین تکنیکوں اور حرکیات میں سند یافتہ نوجوانوں کی ایک نئی نسل کی تیاری کے علاوہ، قانونی برادری، محکمۂ پولیس، تفتیش کاروں اور جیل حکام کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔"
تشدد کی طغیانی کو روکنے کے لیے مشترکہ کوشش
کے پی صوبائی اسمبلی کی ایک رکن، نگہت اورکزئی جن کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے ہے نے کہا، "یہ ایک انتہائی قابلِ تحسین اقدام ہے کیونکہ جرم کی بڑھتی ہوئی شرح، خصوصاً دہشت گردی اور انتہاپسندی کی شکل میں تشدد، ہمارے معاشرے میں باعثِ تشویش ہے اور اس کے لیے ایک بہت تحقیق شدہ اور محنت طلب علاج کی ضرورت ہے۔"
اورکزئی نے کہا کہ مجرموں اور دہشت گردوں کی ایک بڑی اکثریت، خصوصاً وہ جو اپنے ہم وطنوں کے اجتماعی قتل جیسے غیر انسانی افعال کرتے ہیں، دماغی بیماری کا شکار ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمیں معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ [کیا چیز] انہیں تشدد اور انتہاپسندی کی طرف لے کر جاتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ادارہ برائے جرمیات و فرنزک سائنس انتہاپسندی، تشدد اور ہمارے معاشرے کو درپیش ترقی یافتہ جرائم کے شدید مسئلے کو اچھے تحقیقی نتائج پر مبنی تجاویز کی سفارش کرنے کے ذریعے بہت زیادہ مدد کرے گا۔"