سلامتی

پاکستانی پولیس نے ان دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا جنہوں نے اپنی انگلیوں کے نشان مٹائے تھے

جاوید خان

دس اگست کو پشاور میں ذرائع ابلاغ کے سامنے دہشت گردی کے دو ملزموں کو پیش کیا جا رہا ہے۔

دس اگست کو پشاور میں ذرائع ابلاغ کے سامنے دہشت گردی کے دو ملزموں کو پیش کیا جا رہا ہے۔

پشاور - پاکستانی پولیس نے دہشت گردی کے ایک نیٹ ورک پر اپنی فتح کا اعلان کیا ہے جس نے ایسا سفاکانہ ہتھکنڈا اپنایا تھا جسے پولیس نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

بیس مئی کو پشاور میں تین دہشت گرد مردہ ملے جنہوں نے پہلے سے ہی اپنے انگلیوں کے نشانات کو مٹا دیا تھا تاکہ پوسٹ مارٹم کے بعد بھی ان کی شناخت کرنا ممکن نہ رہے۔

ان کے بم کے وقت سے پہلے پھٹ جانے سے وہ تینوں بیس مئی کو ہلاک ہو گئے۔ ان کی ہلاکت، اگرچہ کہ انہوں نے اپنی انگلیوں کو خود ہی کاٹ رکھا تھا، سے شہادتوں کا ایک سلسلہ ملا جس سے پولیس کو باقی کے گروہ کو پکڑنے میں کامیابی ملی۔ یہ بات پولیس نے بتائی۔

حکام اس سے پہلے کسی گروہ کے ایسے ہتھکنڈے کو یاد کرنے میں ناکام رہے جس میں شناخت کو اس طرح سے چھپایا گیا ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا محرک ہو سکتا ہے کہ پولیس کو ان کے خاندانوں کی شناخت سے روکنے کی کوشش ہو۔

حکام ان تینوں آدمیوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ نتائج تک پہنچ گئے ہیں۔

خیبرپختونخواہ (کے پی) پولیس کے انسداد دہشت گردی کے شعبہ (سی ٹی ڈی) کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس سعید احمد نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے تین دہشت گرد "اسکولوں اور ایسی دیگر تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے مگر ان کا بم قبل از وقت پھٹ گیا جس سے وہ بیس مئی کو ہلاک ہو گئے"۔

احمد نے کہا کہ فرنزک لیب میں، سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ "انہوں نے شناخت سے بچنے کے لیے کسی کیمیکل سے اپنی انگلیوں کے نشانات کو مٹا دیا تھا"۔

تاہم احمد نے کہا کہ پولیس ہلاک ہونے والے افراد کی موٹرسائیکل کی مدد سے باقی کے گروہ تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔

احمد نے کہا کہ "ہم نے پشاور میں ان کے خفیہ ٹھکانے سے تقریبا پچاس کلوگرام دھماکہ خیز مواد، سیفٹی فیوز، ڈیٹونیٹر اور دیگر سامان دریافت کیا ہے۔ ہم نے گینگ کے دوسرے ارکان کو بھی گرفتار کیا ہے"۔

کے پی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس گروہ نے پشاور میں بہت سے بم دھماکے اور سیکورٹی افواج پر حملے کیے ہیں۔

عسکریت پسندوں کا بیس مئی کو کوئی اور منصوبہ بھی تھا جیسے کہ ممکنہ طور پر ریگی میں کھلے سرکاری اسکول پر حملہ کرنا، مگر ان کی طرف سے اپنے دھماکہ خیز مواد کو ٹھیک سے سنبھالنے میں ناکامی کی وجہ سے وہ افراد بچ گئے جنہیں وہ ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

پولیس کی طرف سے ردعمل

کے پی کی پولیس نے دہشت گردوں کے غیر ارادی انتباہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شہر بھر میں سیکورٹی کو سخت کر دیا اور تلاشی کی مہمات کو تیز کر دیا۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی نے کے پی پولیس سی ٹی ڈی کی حالیہ مہینوں میں بہت سے کامیابیوں پر تعریف کی جس میں ہلاک ہونے والے تین افراد کے گروہ کو توڑنا بھی شامل ہے۔

درانی نے کہا کہ جنوری 2015 سے سی ٹی ڈی نے "دہشت گردی کے چھہ سو اہم واقعات کو حل کیا ہے اور نو سو سے زیادہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے"۔

کے پی پولیس نے حال ہی میں ایک نئے کیپٹل سٹی پولیس افسر، محمد طاہر اور نئے سپریٹنڈنٹ آف پولیس (دیہی) شوکت خان کو اس امید پر تعینات کیا ہے کہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکے۔

نہ سنا جانے والا حربہ

مشاہدین اس سفاکانہ اور عجیب طریقے پر غور کر رہے ہیں جس سے ان تین عسکریت پسندوں نے اپنی شناخت کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی یوسف علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انہوں نے کبھی ایسے عسکریت پسند گروہ کے بارے میں نہیں سنا جس کے ارکان نے اپنی شناخت چھپائی ہو"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور ذرائع ابلاغ ایسے دہشت گرد گروہوں کے عادی ہیں جو کسی حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "واقعہ کے فورا بعد، کسی نہ کسی گروہ کا ترجمان مقامی ذرائع ابلاغ کو فون یا ای میل کرتا ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ آرمی افسر شکیل خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ نئی چیز ہے۔ دہشت گرد پکڑے جانے سے بچنے کے لیے نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں"۔

خان نے کہا کہ کچھ دہشت گرد ہو سکتا ہے کہ اپنے خاندانوں کو بچانا چاہتے ہوں اور اس لیے وہ پہلے سے اپنی انگلیوں کے نشان مٹا دیتے ہیں اگرچہ کہ وہ چاہتے بھی ہوں کہ ان کی تنظیم دہشت گردی کے حملوں کے بعد کی شہرت کو حاصل کرلیں"۔

خان نے کہا کہ یہ کہنے کے باوجود "ہمیں اس بات کی تفتیش کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں کس بات نے اپنے انگلیوں کے نشانات مٹانے پر مجبور کیا "۔

حالیہ حملے

کے پی پولیس پشاور میں بہت سے ایسے دہشت گردانہ حملوں کی تفتیش کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر اس نیٹ ورک سے جڑے ہو سکتے ہیں۔

داودزئی، ماتھرا، خزانہ اور ریگی پولیس اسٹیشنوں کی حدود میں دہشت گردی کے حملوں کا ایک سلسلہ مئی میں پیش آیا۔ پولیس اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا یہ نیٹ ورک اس میں ملوث تھا۔

ان حملوں میں دوسروں کے علاوہ پولیس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اٹھارہ مئی کو ماتھرا پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہونے والے دوہرے بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا تھا۔

بیس مئی کو انگلیوں کے نشانات نہ ہونے والے تین دہشت گردوں کی ہلاکت کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ خزانہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک دہشت گردانہ حملے میں پندرہ جون کو ایک پولیس سب انسپکٹر ہلاک ہو کیا جب کہ بیس جون کو اسی علاقے میں ایک کانسٹیبل ہلاک ہوا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

bilkul ise trah sy police ko b apna kam krna chahye.Good work of POLIC

جواب