دہشتگردی

کے پی میں مشتبہ دہشتگردوں کو پکڑنے پر پولیس اہلکاروں کو انعامات

جاوید خان

2 اگست کو ایک مشتبہ دہشتگرد کو فقیر آباد،پشاور میں میڈیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ پولیس نے اس پر بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگایا تھا۔ [جاوید خان]

2 اگست کو ایک مشتبہ دہشتگرد کو فقیر آباد،پشاور میں میڈیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ پولیس نے اس پر بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگایا تھا۔ [جاوید خان]

پشاور — حکومتِ خیبرپختونخوا (کے پی) حکام کو مطلوب مشتبہ دہشتگردوں کو پکڑنے پر پولیس افسران کو نقد انعام دے رہی ہے۔

کے پی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے یکم اگست کو چھ افسران کو کے پی میں چھ مطلوب ترین مشتبہ دہشتگردوں کو پکڑنے پر کل 9.3 ملین روپے (85,869 امریکی ڈالر) انعام دیا۔

کے پی پولیس کا کہنا ہے کہ ان چھ کو پکڑنے سے کے پی پولیس کو دہشتگردی کے 50 مقدمات کا فاصلہ کرنے میں مدد ملی۔

قبل ازاں مطلوب ترین مشتبہین کو پکڑنے والے کے پی پولیس افسران کو ادائیگیوں کے بعد یہ انعامات سامنے آئے۔

26 جون کو کے پی پولیس نے سات مطلوب ترین مشتبہ عسکریت پسندوں کو پکڑنے میں مدد کرنے والے چھ افسران کو 12 ملین روپے (114,531 امریکی ڈالر) کے انعامات دیے۔

جنوری 2015 میں کے پی پولیس کے 14 افسران کو 20 مطلوب ترین دہشتگردوں کو پکڑنے پر کل 12.8 ملین روپے (122,166 امریکی ڈالر) ملے۔

انعام حاصل کرنے والے افسران انہیں اپنی ٹیم کے ارکان میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ہیروز کی پذیرائی

کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ان افسران اور ان کی ٹیموں نے نہ صرف کے پی بلکہ پاکستان بھر میں امنِ عامہ کو بہتر بنانے میں غیر معمولی کام کیا ہے۔“

درّانی نے کہا، ”بالخصوص شعبۂ انسدادِ دہشتگردی نے ان دہشتگردوں کو گرفتار کرنے اور ان کے نیٹ ورک پکڑنے میں قابلِ ذکر کام کیا ہے۔“

کے پی پولیس کو امّید ہے کہ نقد انعامات اس فورس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنائیں گے، جس نے پہلے ہی حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑی پیش رفت کی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی یوسف علی نے کہا،”اس سے ان کا عزم یقیناً مزید بلند ہو گا اور مزید جاںفشانی سے کام کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔“

کے پی شعبۂ انسدادِ دہشتگردی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان نے حال ہی میں درّانی کو انعام حاصل کرنے والے متعدد افسران کی کارکردگی اور پکڑے جانے والے مشتبہین سے متعلق تفصیلات بتائیں۔

حالیہ طور پر پکڑے جانے والے مشتبہ عسکریت پسندوں میں ضلع بنّوں میں بکاخیل کے مولوی بہادر جان، دیر بالا کے ولی محمّد المعروف ماچائی، بنّوں کے گلاب شیر، نوشہرہ کے اصغر المعروف ماما، اور کوہاٹ کے سیف علی اور جمیل خان شامل ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ جان بنّوں میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹٰی پی) کا کمانڈر تھا اور ٹی ٹی پی کے ہلاک ہونے والے سربراہان بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے کے سربراہ حافظ گل بہادر کا قریبی ساتھی تھا۔

صلاح الدین نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”جان سیکیورٹی فورسز پر حملوں، بنّوں میں بم دھماکوں اور دیگر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھا اور اس کے سر پر 5 ملین روپے [47,721 امریکی ڈالر] کا انعام تھا۔“

اصغر، المعروف ماما پشاور اور نوشہرہ میں سکولوں اور دیگر سرکاری تنصیبات پر بم حملے کرنے کے لیے مطلوب تھا اور اس کے سر پر 1.5 ملین روپے (14,316 امریکی ڈالر) کا انعام تھا۔

2016 کے اوائل میں گرفتار ہونے والے مشتبہین میں گل رؤف المعروف گل رائپ اور قاری راشد کے سروں پر بالترتیب 2 ملین روپے (190,885 امریکی ڈالر) اور 1 ملین روپے (95442 امریکی ڈالر) کا انعام تھا۔ گل رؤف پر بنوں میں سیکورٹی فورسز، پولیس اور عوامی مقامات پر پانچ مختلف حملوں میں ملوث ہونےکا الزام ہے۔

سیکورٹی فورس کا تعاون کلید تھا

"انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی گرفتاری اور ان کے مزموم عزائم ناکام کرنے کے لئے مختلف اداروں کے فعال کردار اور عملی حمایت" کا شکریہ ادا کرتے ہوئے درانی نے بتایا کہ گرفتاریاں سی ٹی ڈی، ملٹری انٹیلیجنس ایجنسیز اور انٹیلیجنس بیوریو کے درمیان اشتراک سے ہوئیں۔

کےپی پولیس کے مطابق، اضافی طور پر کےپی حکومت نے 10 ملین روپیہ (95,442 ڈالر) سر کی قیمت دو وفاقی ایجنسیز کو ادا کردی۔

کےپی حکومت نے جنوری 2015 میں زندہ یا مردہ انتہائی مطلوب 615 مشتبہ عسکریت پسندوں اور اشتہاری مجرموں (مفرور مجرم) کی فہرست تیار کی جس میں 760 ملین روپیہ (7.3 ملین ڈالر) کا مجموعی انعام رکھا گیا تھا۔

حکومت نے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ اور لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ، ہر دو پر 10 ملین روپیہ (95,442 ڈالر) انعام کا اعلان کیا تھا۔

کےپی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے حال ہی میں بتایا ہے کہ ان کی حکومت آنے والے اسمبلی اجلاس میں پولیس فورس کو آزاد بااختیار لیکن عوام اور کےپی کے منتخب شدہ اداروں کے سامنے جوابدہ بنانے کے لئے پولیس اصلاحات کا بل متعارف کرائے گی۔

خٹک نے 4 اگست کو پشاور میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، "کےپی کی پولیس فورس ملک میں سب سے بہترین ہے، اور ہم اس میں مزید اصلاحات کر رہے ہیں تاکہ اسے بدعنوانی سے پاک، جدید ٹکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس اور ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے بہتر تربیت یافتہ بنایا جاسکے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500