کاروبار

پاکستانی، افغانی کاروباری اداروں نے عسکریت پسندی مسترد کردی

جاوید محمود

21 اگست کو اسلام آباد میں ایک افغان مہاجر تاجر افغانی قالین فروخت کر رہا ہے۔ [جاوید محمود]

21 اگست کو اسلام آباد میں ایک افغان مہاجر تاجر افغانی قالین فروخت کر رہا ہے۔ [جاوید محمود]

کراچی -- معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے باوجود، پاکستان اور افغانستان میں کاروبار کے مالکان 2015-2016 میں تجارت کو توسیع دے رہے ہیں.

"تجارت سے خوشحالی آتی ہے اور دہشت گردی اسے تباہ کردیتی ہے۔" کراچی میں قائم افغانستان کو گھی فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کے انٹرنیشنل بزنس ڈویلپمنٹ ایڈوائزر انجم بشیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "ہمیں عسکریت پسندی کی مزید حوصلہ شکنی کرنے اور تجارت اورخوشحالی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔"

حکومت پاکستان کے مطابق 2015-2016 کے دوران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریبا 2.3 بلین ڈالر (241 بلین روپیہ یا 157.3 بلین افغانی) مالیت کی اشیا کی تجارت کی جاتی رہی، جس میں 2014-2015 میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب انہوں نے 2.2 بلین ڈالر (230.5 بلین پاکستانی روپیہ یا 150.4 بلین افغانی سے زیادہ کی تجارت کی۔

کاروباری رہنماؤں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک میں دہشت گردی کے مسلسل خطرے کے باوجود کوئی بھی ترقی قطعی اہم ہے۔

"دونوں ممالک میں کاروبار مالکان نے دہشت گردی کو مسترد کر دیا ہے،" بشیر نے بتایا. "وہ کاروبار اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لئے اپنا عزم واضح کر رہے ہیں."

انہوں نے بتایا، ہزاروں پاکستانی اور افغان بلواسطہ یا بلاواسطہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پھلتی پھولتی معیشتیں گزشتہ 15 سال میں دہشت گردی سے پیدا خونریزی سے نجات کا راستہ دکھا سکتی ہیں جس میں 60,000 پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

تجارت کا فروغ، دہشتگردی کی شکست

بشیر نے کہا، ”پاکستان اور افغانستان کے کاروبار مالکان تجارت کو فروغ دے کر دہشتگردی کے مذموم مقاصد کو شکست دے رہے ہیں۔“

کراچی ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق صدر ماجد عزیز نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان اور افغانستان کو سرحد کے آر پار کی عداوتوں، سفارتی اختلافات اور تیسرے ملک کی مشترکہ رکاوٹوں یا پابندیوں کے سدِ باب کے ذریعہ کے طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کو استعمال کرنا چاہیے۔“

انہوں نے کہا کہ کابل اور اسلام آباد کو سرحد کے آر پار عسکریت پسندی اور سمگلنگ کی مزید بیخ کنی کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان سے ازسرِ نو رابطہ بحال کرنے کے لیے اور معاشی، سفارتی اور عسکری تعاون کے عمل کو رواں کرنے کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک دہشتگردی کے خلاف جنگ کے محاذ پر ہیں۔

2014 میں افغان صدر اشرف غنی کی فتح نے تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے، دہشتگردی کے خاتمہ، اور معاشی خوشحالی اور امن و استحکام کے ایک دور کے لیے ایک اتحاد کی تشکیل کی امّیدیں پیدا کیں۔

عزیز نے کہا کہ گزشتہ دسمبر میں غنی کے دورۂ پاکستان نے پاکستان کی کاروباری برادری کو زوردار پیغام دیا کہ افغانستان ایک بڑا تجارتی شراکت دار بننے کے لیے پر عزم ہے۔

انہوں نے کہا، ”حکومتی عہدیداران اور معاشی تجزیہ کار پرجوش انداز میں 5 بلین امریکی ڈالر (523.9 بلین روپے یا 341.9 بلین افغان افغانی) کے قلیل مدتی دوطرفہ سالانہ ہدف کی پیش بینی کرتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے روابط بحال کرنے کے لیے تجارت ایک ابتدائی عمل انگیز ہو گی، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے ہمسائے کی شدید ضرورت کا سیمنٹ، سٹیل، مشینری، فرنیچر اور ٹیکسٹائل برآمد کرنے کی بہترین حالت میں ہے۔

عزیز نے کہا، ”دونوں ممالک میں خوشحالی لانے اور عسکریت پسندی کے خاتمہ کے لیے عدم اعتماد کا پردہ گرا کر امن، دوستی اور باہمی تعاون کا سفید پرچم بلند کریں۔“

سیکیورٹی میں بہتری

پاکستان ایوانِ صنعت و تجارت کی کمیٹی برائے سوشل سیکیورٹی اور کارِ خصوصی کی چیئر پرسن روزینہ جلال نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کاروبار مالکان اور سیکیورٹی فورسز نے کراچی میں عسکریت پسندی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی حوصلہ شکنی کے لیے باہمی تعاون کیا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی صورتِ حال میں بہتری کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور تجارت کے فروغ کے بعد 2016 میں کراچی میں دہشتگردانہ حملوں اور بھتہ خوری کی شرح عہدِ جدید میں اپنی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ”عسکریت پسندی، کاروباروں سے بھتہ خوری اور کاروبار مالکان کا اغوا برائے تاوان کی روایت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کاروبار مالکان باقاعدگی سے حکومتی اور سیکیورٹی عہدیداران سے ملاقات کر رہے ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500