دہشتگردی

کوئٹہ دھماکہ کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی کریک ڈاؤن چوگنا

عبدالغنی کاکڑ

9 اگست کو سیکیورٹی اہلکاروں نے مستونگ، بلوچستان میں دہشتگردوں کی صفائی کے لیے ایک آپریشن کیا۔ [آئی ایس پی آر]

9 اگست کو سیکیورٹی اہلکاروں نے مستونگ، بلوچستان میں دہشتگردوں کی صفائی کے لیے ایک آپریشن کیا۔ [آئی ایس پی آر]

کوئٹہ — پاکستانی افواج 8 اگست کوئٹہ کی وکلاء برادری کی خونریزی کا باعث بننے والے خودکش حملہ کے منصوبہ سازوں کے تعاقب میں ہیں۔

ایک بمبار نے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے – زیادہ تر وکلاء اور دو صحافیوں سمیت – 70 افراد ہلاک ہو گئے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی، جنہیں اسی روز قبل ازاں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا، کی میت کے گرد جمع ہوئے۔

بظاہر کاسی کو مقامی وکلاء برادری کو ہسپتال کی جانب دام میں لانے کے لیے قتل کیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں ایک اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیدار ذیشان اسد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”صفائی کا یہ آپریشن 9 اگست کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی ہدایات پر شروع کیا گیا۔ اس آپریشن میں پولیس، فرنٹیئر کور، شعبۂ انسدادِ دہشتگردی اور انٹیلی جنس اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”زیرِ حراست ملزمان کا تعلق متعدد کالعدم گروہوں سے ہے اور ان کی کمین گاہوں سے بھاری اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود ضبط کیا گیا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”افواج فوجی ہیلی کاپٹر استعمال کر رہی ہیں۔۔۔ اور سیکیورٹی فورسز صوبہ میں امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ان شدّت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”خیبر پختونخوا میں اپنی شکست کے بعد، دہشتگرد گروہ اپنی جنگ بلوچستان میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام عسکریت پسندوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ریاست کا عزم ہے۔“

انسدادِ دہشتگردی کے اعلیٰ عہدیدار اور تفتیشی ٹیم کے ایک رکن غلام رسول نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی ایک اعلیٰ سطحی ٹیم خود کش حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تفتیشی ٹیم نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے، اور اس نے ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے خود کش حملہ آور کے جسم کے اعضا بھی حاصل کر لیے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ بمبار کی عمر 20 تا 22 برس تھی اور اس کی خود کش جیکٹ تیز دھماکہ خیز مواد اور بال بیرنگ سے بھری تھی۔

انہوں نے کہا، ”ہم گہرائی سے اس حملے [کے ماخذ] کی تحقیقات کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری ٹیم کو ایک ہفتہ کے اندر وزارتِ داخلہ کو ابتدائی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔“

عسکریت پسندوں کی جانب سے طاقت کے مظاہرہ کی کوشش

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمّد عمر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصّوں میں دہشتگردانہ کاروائیوں کی حالیہ لہر میں ملوث دہشتگرد گروہ خطے میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”یہ بلوچستان میں چند عسکریت پسند گروہوں کا ایک واضح اتحاد ہے، اور یہ گروہ صوبے کے چند بے امن علاقوں میں مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔“

انہوں نے کہا ”عسکریت پسند گروہ ۔۔۔ حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں صوبے کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔“

انہوں نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے بعد اختیار کیے گئے انسدادِ دہشتگردی کے قومی ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”قومی ایکشن پلان [این اے پی] خود کش حملے کرنے والے ان رجعت پسند عسکریت پسندوں سے نمٹنے کی بہترین حکمت ہائے عملی میں سے ایک ہے۔ تاہم بلوچستان میں پوری قوت کے ساتھ این اے پی کے نفاذ کے لیے مزید عزم کی ضرورت ہے۔“

بڑے پیمانے پر مذمت

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے الگ ہوئے گروہ جماعت الاحرار اور "دولت اسلامی عراق وشام" (آئی ایس آئی ایل) کے ایک پاکستانی دھڑے دونوں نے بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہلاکتوں کی تعداد 73 تک پہنچ گئی ہے اور 120 سے زائد اب بھی زیرعلاج ہیں۔"

بلوچ نے بتایا، تریپن افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے اور 20 لوگ زخموں کی تاب نہ لاکر بعد میں جاں بحق ہوئے۔

انہوں نے بتایا، آرمی نے 40 شدید زخمیوں کو بذریعہ ہوئی جہاز کراچی پہنچایا ہے۔

"میں ہسپتال میں ہمارے وکلا پر بہیمانہ حملے کی سختی سے مذمت کرتا ہوں،" صوبائی وزیر اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری نے 9 اگست کو کوئٹہ میں بتایا۔ "دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائیگی۔"

"معصوموں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا،" انہوں نے بتایا۔ "ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔"

انہوں نے مزید بتایا، صوبے میں کسی کو امن خراب کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے جسے ہماری سیکورٹی فورسز نے ان گنت قربانیوں کے بعد قائم کیا ہے۔

دہشت گردی کا گمراہ کن نظریہ

"بزدل دہشت گردوں نے آسان اہداف کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے،" آرمی کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل عامر ریاض نے بتایا۔ "ہم ایک نظریہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں جو ہماری زندگی کا طور طریقہ تبدیل کردینا چاہتا ہے۔"

"دہشت گرد اپنے گمراہ کن نظریہ کے ذریعے ہماری ریاست اور معاشرے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں،" انہوں نے بتایا۔ "ہم اپنی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، اور دہشت گردی کو ضرب عضب اور [این اے پی] کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کرنے کا عمل ناقابل واپسی ہے۔"

"پوری قوم غیر متزلزل عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف متحد ہے، اور پاکستانی فوج اور پوری قوم [8 اگست] کے شہیدوں کے افراد خاندان کے ساتھ کھڑی ہے،" انہوں نے مزید بتایا۔ "ہم دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Ye tamam dehshat gard groups pskistani fauj k palay hue wo sanp he jo fauj ki marzi se pakhtono ka qatle aam kr rahay he aur in k khilaf operation aik dhoka he ye mazhabi daranday fauj r ISI ki sarparasti me khule aam quetta me apni sargarmia jari rakhay hue he

جواب

ماشاءاللہ

جواب

بہت خوب نشاندہی کی۔ ہمیں ان باقیات اور اپنی سرحدوں پر بیٹھے ان کے حاکموں سے لاحق خطرہ کو روکنے کے لیے این اے پی کے منشور پر قائم رہنے کے مصمم ارادہ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

جواب

ہائے، میں پہلی مرتبہ آپ کی نیوز سائیٹ وزٹ کر رہا ہوں۔ یہ تحریر ایک عمدہ تجزیہ ہے۔ پاکستان کا ایک عام شہری ہونے کے ناطے مجھے امّید ہے کہ ریاست جلد ہی عوام کے عدم تحفظ کے مسئلہ سے نمٹ لے گی۔ پاکستان زندہ باد

جواب