پشاور — خیبر پختونخوا (کے پی) کے حکام شرپسندی اور آفات سے تباہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔
اس کوشش کا مقصد تمام بچوں کو تعلیم دے کر شدت پسندی کا خاتمہ کرنا اور اس جہالت اور مایوسی کا خاتمہ کرنا ہے جس کا دہشتگرد بھرتی کنندگان استحصال کرتے ہیں۔
کے پی کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے 27 مئی کو پشاور میں سیلاب سے متاثرہ ایک اسکول کی تعمیرِ نو کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ حکومت نے ”ہماری نئی نسل کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے ۔۔۔ صوبے کے تمام تباہ شدہ سکولوں کی تعمیرِ نو“ کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا، ”تعلیم کے بغیر ہم نہ تو ایک مہذب اور پرامن معاشرے کو یقینی بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی اور خوشحالی کا خواب تعبیر کر سکتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ این جی اوز اور غیرملکی عطیہ دہندگان تعمیرِ نو کی کاوش میں مالی معاونت کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی مقتدرۂ تعمیرِ نو، بحالی و بودوباش (پارسا) کے پاس دہشتگردی اور قدرتی آفات کے متاثرین کی صورتِ حال کی نگرانی کرنے کا اختیار ہے۔
ایک پرعزم شیڈول
ناقابلِ انسداد قدرتی آفات اور دہشتگردوں کی غارت گری نے مرمت کے بھاری اخراجات پیدا کر دیے ہیں۔ 2001 سے کے پی میں دہشتگردی بد تر ہو گئی، لیکن جون 2014 میں فوج کی جانب سے شروع کی گئی جوابی کاروائی سے ملک بھر میں دہشتگردی میں کمی آئی ہے۔
صوبائی مقتدرۂ انصرامِ آفات (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان لطیف الرّحمٰن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا ”مالاکنڈ [کے پی میں] طالبانیت اور سیلابوں سے بدترین متاثر ہونے والا علاقہ تھا۔“
انہوں نے کہا کہ کارکنان نے مالاکنڈ میں ان عوامل کی وجہ سے تباہ ہونے والے 181 اسکولوں میں سے 179 کو ازسرِ نو تعمیر کر دیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ دیگر دو کی تعمیرِ نو کو مکمل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں مالاکنڈ میں 309 اسکول تباہ ہوئے یا نقصان کی زد میں آئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتِ متحدہ عرب امارات سمیت غیر ملکی عطیہ دہندگان مرمت کے اس کام کے لیے مالی مدد کر رہے ہیں۔
ںئے اسکولوں کا مقصد ایک ایسا طبیعاتی معیار فراہم کرنا ہے جو شاید ان سے پہلے کے اسکول نہ دے پائے ہوں۔ ضوابط کے مطابق، ہر پرائمری سکولوں میں کم از کم چھ کمروں کے ساتھ ساتھ ہر نئے اسکول کے لیے بجلی، بیت الخلاء اور فرنیچر درکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکام مستقبل کے اسکولوں کے لیے ایسے مقامات کا انتخاب کر رہے ہیں جہاں سیلاب نہ آتے ہوں۔
بچوں کی واپسی
تعلیم حاصل کے لیے بے قرار بچے نئے تعمیر شدہ اسکولوں میں جوق در جوق آ رہے ہیں۔
لطیف الرّحمٰن نے کہا کہ 2009 میں جب عسکریت پسندی مقامی طور پر بلند ترین سطح پر تھی، اسکولوں میں 30 فیصد حاضری تھی۔ اب چند اسکول اپنی باقاعدہ گنجائش کی 110 تا 120 شرحِ فیصد حاضری کے ساتھ کوشاں ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل امر آفاق نے کہا، ”پارسا مالاکنڈ میں شرپسندی کی وجہ سے تباہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کو مکمل کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ کوشاں ہے۔“
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تعلیم کے بغیر کامیابی نا ممکن ہے۔“
کے پی اور فاٹا میں تعمیرِ نو
کے پی کے وزیرِ تعلیم عاطف خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کے پی بھر میں تقریباً 250 اسکول تباہ کیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کارکنان نے ان میں سے تقریباً 200 کو ازسرِ نو تعمیر کر دیا ہے اور باقی 50 کی تکمیل جلد از جلد کریں گے۔
وزیر نے کہا کہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ، حکومتِ کے پی زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں عارضی اسکولوں کے طور پر شپنگ کنٹینرز کے استعمال پر بھی غور کر رہی ہے۔
فاٹا سیکریٹیریئٹ شعبۂ ترقی و منصوبہ بندی کے ایک عہدیدار اقبال احمد نے کہا کہ دہشتگردی کی وجہ سے کے پی میں تعلیم کو پہنچنے والے نقصان کی نسبت وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں تعلیم کو بدتر نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا میں دہشتگردوں نے 1,100 اسکول تباہ کیے یا ان کو نقصان پہنچایا، انہوں نے مزید کہ کہ تاحال کارکنان نے ان میں سے 665 کی تعمیرِ نو کی ہے۔ شدید ترین متاثرہ قبائلی ایجنسی جنوبی وزیرستان تھی جس میں دہشتگردی سے متاثرہ یا تباہ شدہ اسکول 200 سے زائد تھے۔
انہوں نے کہا کہ باقی ماندہ کی مرمت اور تعمیرِ نو کا انحصار عطیہ دہندگان کے ساتھ فراہمیٔ مالیات کے فیصلہ کن معاہدوں پر ہے۔
فاٹا میں 100 فیصد داخلے کی امید
حکومتِ پاکستان فاٹا کے 100 فیصد بچوں کے اسکول جانے پر کام کر رہی ہے۔ اس نے اپریل میں اس مہم کا آغاز کیا۔
کے پی کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے 8 اپریل کو پشاور میں فاٹا کے اسکولوں کے چوٹی کے بچوں کے لیے انعامات کی تقریب کے دوران کہا، ”ہمیں ملک بھرمیں ہر بچے کو تعلیم دینا ہے۔“
انہوں نے قبائل پر زور دیا کہ وہ 100 فیصد داخلہ تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا، ”تعلیم پاکستان کی حقیقی ترقی کے لیے ایک شرطِ لازم ہے۔“
مخلص اساتذہ رکھے جائیں ۔۔۔ ان کی نگرانی کی جائے ۔۔۔ تعمیر جدید خطوط پر کیجائے مکمل سیکیورٹی پلین تیار کیا جائے ۔۔۔
جوابتبصرے 2
شکریہ پی ٹٰی آئی..
جوابتبصرے 2