جرم و انصاف

خیبر پختونخوا میں بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن

جاوید خان

9 جولائی کو پشاور کنٹونمنٹ میں ایک پاکستانی ایک ٹرانسفارمر کے پاس سے گزر رہا ہے۔ ادائیگی کرنے والے گاہکوں کے تحفظ کے لیے کے پی میں بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ [جاوید خان]

9 جولائی کو پشاور کنٹونمنٹ میں ایک پاکستانی ایک ٹرانسفارمر کے پاس سے گزر رہا ہے۔ ادائیگی کرنے والے گاہکوں کے تحفظ کے لیے کے پی میں بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ [جاوید خان]

پشاور — بجلی چوری کی روک تھام اور عوام کو بجلی کی درست فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے خیبرپختونخوا (کے پی) پولیس اور دیگر حکومتی ایجنسیاں کریک ڈاؤن کر رہی ہیں۔

بجلی چوری کئی برسوں سے ایک مسئلہ رہا ہے اور کے پی سمیت پورے ملک کو اذیت میں مبتلا رکھنے والی بجلی کی شدید قلت کو بدتر بنا رہا ہے۔

ایک مسئلۂ عدم استحکام

متعدد میڈیا کی خبروں کے مطابق، درکار توانائی فراہم کرنے میں ملک کی ناکامی خام داخلی پیداوار کی شرحِ فیصد میں اندازاً دو درجے کمی کا باعث بنتی ہے اور عوام میں غم و غصہ کو ہوا دیتی ہے۔ ایک غیرملکی تھنک ٹینک نے حال ہی میں عدم استحکام کا باعث بننے والے ”معاشرتی اور سیاسی اثرات“ کی تنبیہ کی، جن میں احتجاج اور ”عوامی املاک کی تباہی“ شامل ہیں۔

بد دیانت افراد، دیگر تمام کے لیے حالات کو بدترین بناتے ہوئے، یا تو بروقت اپنے بل ادا نہیں کرتے یا غیر قانونی طور پر بجلی کی تاروں سے بجلی حاصل کرتے ہیں۔

ادائیگی کرنے والے صارفین اور انفراسٹرکچر کے تحفظ کی کوشش میں کے پی کے اہلکار بل کی ادائیگی میں غفلت برتنے والوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں اور چھاپے مار رہے ہیں۔

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پی ای ایس سی او) تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر عامر محمّد نے کہا، ”ہم نے یکم جنوری تا 10 جولائی بجلی چوروں کے خلاف 714 سے زائد مقدمات درج کیے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اس عرصہ کے دوران ہم نے نادہندگان سے تقریباً 40.7 ملین روپے (388,285 امریکی ڈالر) بازیاب کیے،“ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے تقریباً 800 گرفتاریاں کیں۔

پشاور کا پی ای ایس سی او تھانہ 2013 میں قائم ہوا اور صوبائی صدرمقام کے ساتھ ساتھ، نوشہرہ، ہنگو، کوہاٹ اور ہزارہ ڈویژن کے چند حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں 50 پولیس اہلکار ہیں جو محمّد کے ماتحت کام کرتے ہیں۔

چارسدہ اور بنوں میں دو دیگر تھانے بجلی چوری کی نگرانی کرتے ہیں اور بقایاجات کی وصولی کو یقینی بناتے ہیں۔

پولیس اور پی ای ایس سی او ایک ساتھ کام کر رہے ہیں

پولیس اہلکار پی ای ایس سی او سب ڈویژن کے ریگولر ملازمین کے تعاون سے کام کرتے ہیں، جو چھاپوں کے دوران پولیس کا ساتھ دیتے ہیں۔

محمّد نے کہا، ”پی ای ایس سی او کی سب ڈویژن لالہ کی حدود میں بجلی چوروں کے خلاف 70 مقدمات درج کیے گئے۔ رحمان بابا، داؤدزئی اور گل بیلا ان دیگر سب ڈویژنز میں شامل ہیں جہاں زیادہ تر مقدمات درج ہوئے۔“

محمّد نے کہا کہ کریک ڈاؤن کی وجہ سے چوری میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2015 میں پولیس نے بجلی چوروں کے خلاف کل 1,557 مقدمات درج کیے اور 70.8 ملین روپے (675,444 امریکی ڈالر) بازیافت کیے۔

بجلی چوروں کے خلاف قانونی کاروائی کے مرہونِ منّت پی ای ایس سی او نے 2015 میں نقصانات میں کمی ریکارڈ کی۔ 2015 میں یہ نقصانات 2014 کے 34 بلین روپے (324 ملین امریکی ڈالر) سے کم ہو کر 16 بلین روپے (153 ملین امریکی ڈالر) تک آ گئے۔

پی ای ایس سی او کے ترجمان شوکت افضل نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کنڈیوں [لائن سے بجلی حاصل کرنے کے آلے] اور بجلی چوروں کے خلاف پولیس کے مسلسل چھاپوں سے چوری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ بجلی چوری کے زیادہ واقعات والے علاقوں کو بجلی کی زیادہ بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا، ”ایسے علاقوں کو بجلی کی مناسب رسد حاصل ہے جہاں کے رہائشی زیادہ باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔“

حکام بجلی چوروں کے خلاف کوشاں

کے پی کے حکام اس وبا کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہیں۔

مارچ میں پی ای ایس سی او حکام نے کے پی میں بجلی چوری کے خاتمہ کے لیے پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور دیگر محکموں کی مدد حاصل کرنے کی غرض سے کے پی کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات کی۔

حکومتِ کے پی نے جون میں بجلی چوری کے مقابلہ کے لیے خراب کارکردگی پر متعدد اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس نے بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن، بطور خاص براہِ راست بجلی کی تاروں کے ساتھ منسلک دیسی ساختہ کنڈیوں کو اتارنے کے لیے سخت احکامات جاری کیے۔

پی ای ایس سی او کے سی ای او انوارالحق یوسفزئی نے 21 اپریل کی ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، “[کے پی] حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کی رو سے پی ای ایس سی او حکام کے ہمراہ ڈپٹی کمشنرز بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کاروائیوں کی قیادت کریں گے۔“

انہوں نے کہا کہ پی ای ایس سی اوکے پی کے تمام صارفین کو بجلی کی لگاتار فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے یہ کاوشیں کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ” پی ای ایس سی او کے پاس93 گرِڈ سٹیشن ہیں۔ کے پی میں 10 مزید گرِڈ سٹیشنز پر کام جاری ہے۔“

چوری کو روکنے کے لیے دیگر اقدامات

پولیس کے کام کے علاوہ، کے پی حکام چوری میں کمی کے لیے دیگر اقدامات کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ بجلی کے میٹرز رہائشوں سے باہر کھمبوں پر منتقل کر رہے ہیں۔ وہ نئی ڈیزائن شدہ غیرموصل تاریں بھی نصب کر رہے ہیں جس سے پاور سپلائی سے جوڑ لگانا مشکل تر ہو جاتا ہے۔

اس کے باوجود بہتری آنے میں وقت لگے گا۔

پشاور کے شمالی ضلع کے ایک رہائشی محمدّ اسحاق نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”دیہی علاقوں میں، جہاں میٹر باہر نصب ہیں اور جہاں پرانی لائنز کی جگہ نئی تاروں نے لے لی ہے، میں تاحال شہری علاقوں کی نسبت زیادہ لوڈ شیڈنگ [بلیک آؤٹ] ہے۔“

انہوں نے کہا کہ کم چوری کے علاقوں کے صارفین کو زیادہ بجلی ملنی چاہیے۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ متعدد ذرائع سے رسد میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں خیبر ایجنسی میں بجلی پیدا کرنے کے متعدد چھوٹے ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہمیں عمران خان سے پیار ہے

جواب