معیشت

پاکستان ہنڈی کے نظام کے بے جا استعمال کو روکنے کا متلاشی

از جاوید محمود اور محمد فہیم

کراچی میں غیر ملکی کرنسی کا لین دین کرنے والا ایک شخص 20 جولائی کو ڈالر گنتے ہوئے۔ تجزیہ کار پاکستانی حکام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری روکنے کے لیے ہنڈی اور حوالہ کے نظام کے بے جا استعمال کو روکیں۔ [جاوید محمود]

کراچی میں غیر ملکی کرنسی کا لین دین کرنے والا ایک شخص 20 جولائی کو ڈالر گنتے ہوئے۔ تجزیہ کار پاکستانی حکام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری روکنے کے لیے ہنڈی اور حوالہ کے نظام کے بے جا استعمال کو روکیں۔ [جاوید محمود]

کراچی - پاکستانی بینکار اور حکام رقم کے تبادلے کے قدیم ہنڈی اور حوالہ کے نظاموں کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں تاکہ وہ دہشت گردوں کو پیسے کی فراہمی روک سکیں۔

یہ نظام، جن میں با اعتماد دلال کے ذریعے سرحد پار پیسے کی منتقلی شامل ہے، بہت قدیم ہیں اور ان لوگوں میں مقبول ہیں جو کئی وجوہات کی بناء پر بینکوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ ان نظاموں کے صارفین سہولت، رازداری، رفتار اور کسی حد تک اس معقول شرح تبادلہ کی قدر کرتے ہیں جس کی یہ نظام پیشکش کرتے ہیں۔

تاہم، ان کی باضابطہ نگرانی کی کمی اور ٹیکس کے نظام سے ان کے گریز کی وجہ سے، وہ ان حکام کے لیے باعثِ تشویش ہیں جو دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کو روکنا چاہتے ہیں۔

کچھ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ انتہاپسندی کے حامی مدارس بیرونی ممالک سے پاکستان میں غیر قانونی سرمائے کے تبادے میں ملوث ہیں۔

نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) میں گلوبل ہوم رمیٹنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ارتضیٰ کاظمی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ہنڈی اور حوالہ "دیگر ممالک سے پاکستان میں سالانہ 20 بلین ڈالر [2.1 ٹریلین روپے] کی ترسیلِ زر کے ذمہ دار ہیں۔"

کاظمی نے کہا، درحقیقت ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے ترسیلِ زر تقریباً ان رقوم کے مساوی ہیں جو پاکستانی بینکوں کے ذریعے وصول کرتے ہیں۔ اگر وہ تمام ترسیلِ زر بینکوں کے ذریعے ہو تو پاکستان میں دہشت گردوں کو سرمایہ ملنے کا اہم ترین راستہ بند ہو جائے گا۔

عسکریت پسندوں کو سرمائے کی فراہمی

اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹیڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہنڈی اور حوالہ [پاکستانی] عسکریت پسندوں کے بڑے ذرائع آمدن ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ این بی پی دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں کو تعلیم دینے کا ارادہ رکھتا ہے کہ وہ اپنی رقوم قانونی بینکاری ذرائع سے بھیجیں، ہنڈی اور حوالہ سے نہیں۔

کاظمی نے کہا، "اسلام میں حلال پیسے کی منتقلی کے لیے غیر قانونی راستوں کا استعمال پیسے کو حرام بنا دیتا ہے۔ ہم بیرونِ ملک بسنے والوں کو یہ اسلامی نکتۂ نظر بتائیں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ این بی پی "رقوم کی تیز تر منتقلی کو فروغ دینے کے لیے آن لائن بینکاری نظام اور ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔"

کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے ہنڈی اور حوالہ کے خطرات کے اس سخت تخمینے پر کاظمی کے ساتھ اتفاق کیا۔

بٹ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہنڈی القاعدہ کے ساتھ مشتبہ روابط اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کے لیے پیسے کی غیر قانونی منتقلی میں مخصوص این جی اوز کی شمولیت کی وجہ سے زیرِ عتاب آئی ہے۔"

اقتصادی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا حصہ ہے: برآمدات کے بعد، بیرونِ ملک سے رقوم کی منتقلی پاکستان کا غیر ملکی زرِ مبادلہ کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔

حکام کارروائی کریں

برسوں سے، پاکستانی حکام نے اس مسئلے کو تسلیم کیا ہے، لیکن روایتی کاموں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی۔

دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گرد حملے میں 140 سے زائد بچوں کی شہادت کے بعد حالات تبدیل ہو گئے۔ چند روز بعد، وفاقی حکومت نے انسدادِ دہشت گردی کے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے اطلاق کے احکامات جاری کیے۔

پشاور میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے تجارتی بینکاری، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[این اے پی] کے بعد سے ہم نے [خیبرپختونخوا میں] سینکڑوں چھاپے مارے ہیں۔ ہم نے 250 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔"

24 جون کو، کے پی وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری، منیر اعظم نے ایف آئی اے اور پشاور میں دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دفاعی حکام پر مشتمل ایک اجلاس کی صدارت کی۔ انٹیلیجنس افسران نے کے پی میں پیسے کی غیر قانونی منتقلی پر ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی۔

اعظم نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ کے پی میں پیسے کی غیر قانونی منتقلی کرنے والوں کے کاروباروں اور گھروں پر چھاپے مارنے کا آغاز کریں۔

پیسے کی غیر قانونی منتقلی کو روکنے جیسے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیرِ اعلیٰ کے پی کے ایک سینیئر مشیر مشتاق غنی نے کہا کہ دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کا حقیقتاً سخت کام ابھی باقی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، سیکیورٹی فورسز، خصوصاً فوج، نے [جون 2014 میں] آپریشن ضربِ عضب کے آغاز کے بعد سے شاندار کام کیا ہے۔ لیکن مشکل مرحلہ ابھی شروع ہوا ہے۔"

ایک عالمی تبدیلی

پشاور میں ایف آئی اے کے اہلکار نے کہا کہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری کرنے والے جال کی جغرافیائی رسائی بہت وسیع ہے۔

انہوں نے کہا، "جلال آباد، دوبئی، شارجہ اور دیگر خطے پیسے بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے سب سے بڑی منڈیاں ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ پیسہ صرف بیرونی ممالک سے ہی نہیں آتا جاتا، بلکہ پاکستانی شہروں کے درمیان بھی منتقل ہوتا ہے۔

حکام نے مزید کہا، "ایف آئی اے نے [این اے پی کے آغاز کے بعد سے] کے پی میں غیر قانونی طور پر پیسہ منتقل کرنے والوں سے 350 ملین روپے [3.3 ملین ڈالر] برآمد کیے ہیں۔ یہ اربوں ہو سکتے تھے، لیکن ہمارے پاس وسائل اور عملے کی قلت ہے ۔۔۔ ایف آئی اے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے قابلِ ذکر کام کر رہی ہے۔"

اپنی طرف سے غنی نے کہا، "اگر ایف آئی اے کو کوئی بھی وسائل یا افرادی قوت درکار ہے تو صوبائی حکومت اس کی معاونت کرے گی۔"

غنی نے پیسے کی غیر قانونی منتقلی کے خلاف جنگ کے لیے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے سیاسی اصلاحات کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ وہاں پولیس کا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے۔

فاٹا کی بے وضع قانونی حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، "ہم فی الوقت فاٹا میں پناہ لیے ہوئے پیسے کا غیر قانونی دھندہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ یا تو اسے نیا صوبہ بنا دیں یا اسے کے پی میں ضم کر دیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500