پشاور — دہشتگردی کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھو بیٹھنے پر سوگوار خاندان دہشتگردی کے مقدمات کو تیز کرنے کی حکومتی کوششوں کی پذیرائی کر رہے ہیں۔
دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں دہشتگردوں کے ہاتھوں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام سے قبل پاکستان میں — عموماً سست دیوانی عدالتی نظام میں چلائے جانے والے — دہشتگردی کے مقدمات برسوں پر محیط تاخیر اور شواہد کی عدم دستیابی پر اکثر بری کر دیے جانے کی وجہ سے مشہور تھے۔
ان حالات میں سوگوار خاندانوں کے پاس کوئی چارہ نہ ہوتا تھا۔
تاہم، پشاور میں قتلِ عام کے بعد، حکام نے فیصلہ کیا کہ تیز تر فوجی عدالتوں میں ان مجرموں کے لیے یقینی سزا دہشتگردی کو شکست دینے کی کثیر جہتی حکمتِ عملی کا ایک کار آمد جزُ ہو سکتا ہے۔
اس حکمتِ عملی کے دیگر اجزاء میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کراچی اور قبائلی پٹی میں کئی برسوں پر محیط کریک ڈاؤن شامل ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عام شہریوں کو قتل کرنے اور فوجیوں پر حملے کرنے کے جرم میں عسکری عدالتوں سے سزا پانے والے 12 عسکریت پسندوں کی سزائے موت کی توثیق کرتے ہوئے پاکستانی حکام پر اس معاملہ سے متعلق نہایت سنجیدگی کا اظہار کر دیا۔
17 جولائی کی ایک خبر کے مطابق، پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف نے ایک حالیہ فون کال میں افغان صدر اشرف غنی کو بتایا، ”میں اپنے ملک کی زمین سے دہشتگردی کو اکھاڑ پھینکنے کی مہم کی قیادت کروں گا۔“
کوتاہی کا خاتمہ
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک دفاعی و سیاسی تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) جی۔ بی۔ شاہ بخاری نے کہا کہ کئی برسوں تک، پاکستان میں دو وجوہات کی بنا پر دہشتگردوں کا عزم بلند تھا۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”وہ اپنے مقصد کو برحق قیاس کرتے تھے اور انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ عدالتی نظام کی کوتاہیوں کی وجہ سے انہیں ایک راہِ فرار میسر ہو گی۔“
تاہم، اے پی ایس قتلِ عام کے بعد سے، انتہائی محفوظ عسکری عدالتیں، جن کے ججوں پر رسوخ کرنا یا انہیں قتل کرنا سویلین ججوں کی نسبت مشکل ہے، دہشتگرد مجرموں کو سخت سزائیں سنا رہی ہیں۔
سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمّد ارشاد نے گزشتہ اگست میں کہا، ”خود کو انصاف کی پہنچ سے دور خیال کرنے والے جارح دہشتگردوں سے عسکری عدالتوں کے ذریعے نمٹا جائے گا۔“
2016 میں، عدالتوں اور افواج کے عسکریت پسندوں کے مدِّ مقابل ہونے کے بعد، پاکستانی تجزیہ کاروں نے دہشتگرد حملوں میں تیزی سے کمی کا مشاہدہ کیا ہے۔
مثال کے طور ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق، 17 اپریل تک پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی 324 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اگرچہ یہ مجموعی تعداد زیادہ ہے، تاہم 2015 کے اسی عرصہ میں ہونے والی 458 اموات سے نہایت کم ہے۔
پاکستان مسلم لیگ-نواز (پی ایم ایل-این) کی نمائندگی کرنے والے کے پی اسمبلی کے ایک رکن محمّد راشد خان نے کہا، ”حکومت کی پالیسی اور ریاستی اداروں کی کارکردگی عسکریت پسندی میں ایک نمایاں کمی لائی ہے، جو کہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے مختلف حصّوں میں ایک بدترین حقیقت ہوتی تھی۔“
مزید عسکری مقدمات کی حمایت
خان نے مشتبہ دہشتگردوں پر مقدمات چلانے کے لیے عسکری عدالتوں کے اختیارات میں اضافہ کی تجویز دی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”عسکری عدالتوں کے موثر رہنے کے عرصہ، جو [اے پی ایس قتلِ عام کے بعد جنوری 2015 سے جنوری 2017 تک] دو برس کے لیے قائم کیا گیا تھا، کو بڑھایا جانا چاہیے۔“
خان نے کثیر جہتی کریک ڈاؤن سے ہونے والی پیشرفت کی معتدد علامات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا، ”شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، ان کی کمین گاہیں اور محفوظ جنتیں تباہ ہو چکی ہیں اور اب وہ مفرور ہیں۔“
ایک متاثرہ کے والد کہتے ہیں
دہشتگردوں کے ہاتھوں جاںبحق اور زخمی ہونے والوں کے اقارب اس امر سے خوش ہیں کہ عدالتیں سزاواروں کو سزائیں دے رہی ہیں۔
اے پی ایس قتلِ عام میں زخمی ہونے والے ایک طالبِ علم کے والد، ظہیر الدین، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں بدترین عذاب کا سامنا تھا۔“
انہوں نے کراچی اور قبائلی پٹی میں مسلسل جاری انسدادِ دہشتگردی کی جارحانہ کاروائی اور مشتبہ دہشتگردوں کے معقول عسکری مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”اب ہم مکافاتِ عمل دیکھ کر مطمئن ہیں۔“
مثال کے طور پر اے پی ایس حملہ آوروں میں سے چار کو دسمبر 2015 میں کوہاٹ میں پھانسی دی گئی۔
ظہیر نے کہا، ”ہمارا پرتشدد واقعات سے زخمی معاشرہ ۔۔۔ اب آرام میں ہے۔ عسکری عدالتوں کی جانب سے انتہا پسندوں کو سزاؤں کے بعد حکومت پر ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔“
ظہیر کے پاس دہشتگردی کو شکست دینے کے لیے مزید مشورے تھے: مدرسوں میں ایسے نصاب کا تعارف جو امن و رواداری کو فروغ دے۔
انہوں نے کہا کہ طویل المعیاد مقصد عسکریت سے متاثرہ علاقوں کے باشندوں کی سوچ کو بدلنا ہے۔
ایلیٹ کے پی پولیس فورس کے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار وقار خان نے کہا کہ جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے عوام دہشتگردی کے خلاف حکومتی کوششوں کی پذیرائی کر رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”مجرم مدعاعلیہان کی سزائیں دیکھنے کے بعد نفاذِ قانون کے اہلکاروں کا عزم بلند ہو رہا ہے۔“