دہشتگردی

تجزیہ کار: کھلونا بندوقیں پاکستانی بچوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کر سکتی ہیں

دانش یوسفزئی

پشاور میں 3 جولائی کو بچے کھلونا بندوقوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور میں 3 جولائی کو بچے کھلونا بندوقوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور -- ضلع پشاور، خیبر پختونخواہ کے حکام نے، جنہیں تشدد اور بچوں کے ممکنہ دہشت گرد رحجان پر تشویش ہے، حال ہی میں ضلع میں کھلونا اور پیلٹ بندوقوں کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پشاور کے ڈپٹی کمشنر ریاض محسود نے پاکستان فارورڈ بتایا کہ یہ پابندی پورے جولائی میں نافذالعمل رہے گی۔ اس معیاد کے ختم ہونے کے بعد حکام اس پالیسی پر نظرِ ثانی کریں گے۔

اس کی خلاف ورزی کی سزا چھ ماہ قید اور 50،000 روپے (500 امریکی ڈالر) جرمانہ جتنی سخت ہو سکتی ہے۔

کھلونا بندوقوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اصلی بندوقوں کی اور یہ عید اور دیگر تہواروں کے دوران بچوں کے جشن منانے کا بڑا حصّہ ہیں۔

محسود نے کہا کہ تاہم، "کھلونا بندوقوں کا استعمال بچوں کے ذہنوں پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ ان کے لیے دہشت گردی اورعدم رواداری کو پرکشش بنا سکتا ہے۔"

محسود نے مزید کہا، "کھلونا بندوقوں کے علاوہ، بچوں کے لئے دوسرے بہت سے کھلونے ہیں۔ ہمیں کم عمر بچوں کو ہتھیار استعمال کرنا نہیں سکھانا چاہیۓ۔"

سخت نفاذ

محسود نے کہا، "خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔"

محسود نے کہا، "جولائی کے دوران ضلع انتظامیہ نے پشاور کی مختلف مارکیٹوں میں 55 دکانوں کو سر بمہر کر دیا اور کھلونا بندوقوں کے 30 سے زائد ڈیلروں کو گرفتار کیا ہے۔

کے پی پولیس نے 3 جولائی کو کارخانو مارکیٹ میں کھلونا بندوقوں سے لدے ایک ٹرک کو ضبط کر لیا۔ انہوں نے حیات آباد پولیس اسٹیشن میں پورے سامان کو تباہ کر دیا۔

پشاور میں کھلونوں کی ایک دکان کے مالک، اکرام اللہ خان نے پاکستان فارورڈ بتایا کہ وہ 10 سالوں سے کھلونا بندوقیں بیچ رہا تھا۔

اگرچہ اس سال وہ اس قسم کا تجارتی مال اپنی دکان میں نہیں رکھ رہا۔ گزشتہ سال، ایک دوسری عارضی پابندی کے دوران، مقامی پولیس نے کھلونا بندوقیں فروخت کرنے پر اسے 5،000 روپے (50 امریکی ڈالر) جرمانہ عائد کیا تھا۔

ایک خوفناک زخم

پشاور کے ایک رہائشی، وجاہت خان نے یاد کرتے ہوۓ بتایا کہ 2013 میں عید الفطر ان کے خاندان کے لیے المناک بنتے بنتے رہ گئی۔

اس دن، ان کے بھتیجے نے ایک چھّروں والی گن سے وجاہت خان کے چھ سالہ بیٹے واجد پر گولی چلا دی۔

وجاہت نے یاد کیا، "میرے بیٹے کا خون بہہ رہا تھا۔ ہم فوراً اسے ہسپتال لے گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کی آنکھ محفوظ رہی۔"

انہوں نے کہا کہ اس دن سے وہ تمام کھلونا بندوقوں کے مخالف ہیں کیونکہ، اگرچہ اُن کو کھلونا کہا جاتا ہے، وہ بچوں کو زخمی کر سکتی ہیں۔

مستقل پابندی کا مطالبہ

سول سوسائٹی اور پشاور میں بچوں کی فلاح و بہبود کی تنظیمیں مستقل پابندی چاہتی ہیں، جس سے اس پیغام کو ہمیشہ کے لیے مسترد کیا جا سکے گا جو کھلونا بندوقوں کے استعمال میں پنہاں ہو سکتا ہے۔

آلٹرنیٹِو نیریٹِو اگینسٹ وائیلنس (تشدد کے خلاف متبادل بیانیہ) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن، پشاور کے سماجی کارکن شفیق گِگیانی نے پاکستان فارورڈ کوبتایا کہ پشتونوں کو اپنی برادری میں اس پیغام کو بدل دینا چاہئے کہ بندوق شجاعت اور طاقت کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، "ہمیں ہتھیاروں کے بجائے سائنس اور تعلیم کو اپنانا چاہیئے۔"

گگیانی ملک بھر میں اس پر مکمل پابندی کی امید کر رہے ہیں۔

انہوں نے دلیل دی،"ہمیں اپنے اسکول جانے والے بچوں کو ایک پُر امن نصاب پڑھانا چاہیئے۔"

پشاور کی ایک سماجی کارکن، ثنا اعجاز نے پاکستان فارورڈ بتایا کہ کھلونا بندوقیں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں جنگ کے بارے میں تاثرات کو پیچیدہ کر دیتی ہیں، جن کو بچے اپنا لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچے ہمارے کل کے رہنما ہیں، ان کے پاس ایسے کھلونے ہونے چاہیئں جو امن سکھاتے ہوں۔

انہوں نے کہا، "اس سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔"

اعجاز نے دکانداروں پر زور دیا کہ وہ کھلونا بندوقوں کو دوسرے کھلونوں سے تبدیل کر دیں جن کا بچوں پر زیادہ مثبت اثر ہوتا ہے۔

یہ حقیقی چیز سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہیں

پشاور شہر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ، وسیم خلیل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کھلونا بندوقوں کی اصلی ہتھیاروں سے بہت زیادہ مشابہت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کھلونا بندوق خریدنے والے اپنے بچے کو یہ بچوں کو سکھا رہے ہیں کہ ایک اصلی بندوق کس طرح استعمال کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا، "والدین سمجھتے ہیں کہ وہ محض کھلونے ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ افغانستان پر (1979 میں) سوویت حملے کے بعد سے ہونے والی بلا توقف جنگ اور دہشت گردی نے پشتونوں کو ہتھیاروں کا عادی بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "[پاکستان کی پشتون پٹی میں] ہر کوئی ہتھیاروں سے واقف ہے۔ ہمارے بچوں کے بندوقوں کو پسند کرنے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔"

خلیل نے کہا کہ ان کی ٹیم اُن ڈیلروں اور کھلونا بندوقیں بنانے والوں کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کے انتظامیہ کے احکامات پرعمل کر رہی ہے۔

آتشیں ہتھیار کی کشش ختم کرنے کے لیے پُر امید

حکام اور ماہرین نفسیات امید کر رہے ہیں کہ پشاور کے 11 سالہ عارف خان جیسے بچے اپنی توانائی استعمال کرنے کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کر لیں گے۔

عارف بڑی بےتکلفی سے کہتا ہے کہ وہ بندوقوں سے محبت کرتا ہے۔ اُس نے حال ہی میں کارخانو مارکیٹ سے ایک کھلونا بندوق خریدی تھی۔

اس نے کہا کہ یہ بالکل اصلی لگتی ہے اور وہ پرندوں پر چھرے چلا سکتا ہے۔

پشاور کے ماہر نفسیات جاوید خان نے خبردار کیا کہ کھلونا بندوقوں سے کھیلنے والے متعدد بچے اچھے جوان نہیں بنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد آسانی سے اُن پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کر سکتے ہیں جنہوں نے کھلونا بندوقوں کے ساتھ کھیلتے ہوۓ غلط سبق سیکھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشکل اسوقت ہوتی ہے جب وہ لوگ جنہیں "طاقت کا جنون" ہے حقیقی آتشیں اسلحہ استعمال کرنا سیکھ لیتے ہیں۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ "کھلونا بندوقوں پر ... مستقل پابندی عائد کر دینی چاہیے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ بہت اچھی معلومات ہیں؛ ہماری حکومت کو کھلونا بندوقوں سے متعلق کاروائی کرنی چاہیے۔ آپ کو ایسے معلوماتی تحریری مضامین تشکیل دینے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

جواب