پشاور - جبکہ عیدالفطر کی تیاریاں ہو رہی تھیں، مسلمان مدینہ میں مسجدِ نبوی کے باہر خود کش دھماکے کے بعد وسیع پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
مسجدِ نبوی پر 4 جولائی کو نمازِ مغرب کے دوران، ایک خودکش بمبار مسجد کے قریب پہنچا اور جب محافظ افسران نے اس سے پوچھ گچھ کے لیے اس تک پہنچنا چاہا تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ سعوی وزارتِ داخلہ کے مطابق، حملے میں چار پولیس افسران جاں بحق اور پانچ دیگر افسران زخمی ہوئے۔
مسجد، جہاں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روزہ مبارک ہے اور قریبی جنت البقیع، وہ قبرستان جہاں پیغمبر کے رشتہ دار اور صحابی دفن ہیں، ہر سال لاکھوں حجاج کرام کے لیے باعثِ کشش ہے۔
اگرچہ کسی بھی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے ماضی میں اپنے حامیوں کو رمضان کے دران حملے کرنے کی ترغیب دی تھی۔
تمام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مقام پر بم دھماکے نے رمضان کے آخری ایام میں بہت سے لوگوں کو تکلیف سے رلا دیا ہے۔
ایک پاکستانی دینی عالم اور یونیورسٹی آف پشاور کے سابقہ وائس چانسلر، قبلہ ایاز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[مسجد نبوی] ہر مسلمان کے لیے بہت مقدس اور پاک جگہ ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو اور اس کو نشانہ بناتے ہوئے دہشت گرد عالمی برادری کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں وہ ناقابلِ فہم ہے۔"
ایاز نے کہا کہ ان کا دل صدمے اور دکھ سے رو رہا تھا۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ دیکھنا بہت خوفناک اور شرمناک ہے کہ لوگ کیسے انتہاپسند بن رہے ہیں ۔۔۔ اتنے زیادہ کہ انہوں نے رمضان اور مسجدِ نبوی، ہمارے نبی پاک کی آخری آرام گاہ کی تعظیم بھی فراموش کر دی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ مجرم مرتد ہیں جنہیں مومنوں کے لیے واجب التعظیم مقامات کا بھی احترام نہیں ہے اور وہ جو ہر اس چیز کو توڑنے پر تُلے ہوئے ہیں جو دوسروں کے لیے مقدس ہے۔
دہشت گرد دین کا احترام نہیں کرتے
عین اس وقت جب مدینہ میں حملہ ہوا، ایک اور خودکش دھماکہ قطیف، سعودی عرب میں ایک مسجد کے قریب ہوا اور اسی دن کچھ وقت پہلے، جدہ میں ایک خود کش دھماکے میں دو پولیس افسران زخمی ہو گئے تھے۔
سعودی شوریٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ الشیخ نے کہا کہ مدینہ میں بم دھماکہ "کسی ایسے فرد کی جانب سے ہو ہی نہیں سکتا جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہو،" جبکہ مملکت کے علماء کی سپریم کونسل نے کہا کہ دھماکے "ثابت کرتے ہیں کہ ان مجرموں نے ۔۔۔ ہر اس چیز کی خلاف ورزی کی ہے جو مقدس ہے۔"
پاکستان کی اعلیٰ قیادت -- بشمول صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنروں -- نے سعودی عرب میں دہشت گرد حملوں کی پرزور مذمت کی۔
پانچ جولائی کو ایک بیان میں کے پی کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے کہا، "یہ سنگدلی اور دہشت گردی کی بدترین قسم ہے، جس نے پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔"
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما، اور کے پی صوبائی اسمبلی کے سابق رکن، عبدالرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مسجد اور شہر کی دینی اہمیت کی وجہ سے ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ [مسجد نبوی] جائے اور یہاں تک کہ مدینہ میں اس کی جان نکلے۔"
یونیورسٹی آف پشاور میں شیخ زاید اسلامی مرکز کے سابق ڈائریکٹر، پروفیسر عبدالغفور نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس قابلِ نفرت فعل کی مذمت اور ملامت کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔"
غفور نے کہا کہ مکہ اور مدینہ کی حرمت پر تمام مسلمان متحد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے مدینہ میں مسجدِ نبوی کے تقدس کی بے حرمتی کی ہے درحقیقت مسلمان نہیں ہیں اور انہیں اعلانیہ طور پر کافر قرار دیا جانا چاہیئے تاکہ کوئی بھی ان کے طریقوں سے گمراہ نہ ہو۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج، اور دینی عالم، نذیر غازی نے کہا، "سعودی عرب میں مکہ المکرمہ کے بعد مدینہ دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور دنیا بھر کے مسلمان ان دونوں کو 'شہرِ امن' سمجھتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے یہ ناقابلِ برداشت ہے کہ دہشت گردوں نے ان کے نبی کی مسجد کو نشانہ بنایا۔
غازی نے کہا، "اس واقعہ نے حملہ آوروں کے دینی پس منظر پر سوالات اٹھا دیئے ہیں، کیونکہ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ ایک مسلمان ایسا گناہ کر سکتا ہے۔"
انہوں نے کہا، "اس نے ان دہشت گردوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نبی پاک کی آرام گاہ کو نشانہ بنائے۔
مسلمان دہشت گردی کے خلاف متحد
مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے قائد، مفتی امین شہیدی نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان ایسا گھناؤنا کام کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
انہوں نے 4 جولائی کو نشر ہونے والی ایک خبر میں کہا، "پوری مسلم اُمہ شدید صدمے کی حالت میں ہے اور واقعہ پر سوگوار ہے، جس نے ۔۔۔ ہمیں حیرت زدہ کر دیا ہے۔"
مفتی امین نے کہا کہ داعش حملے کی پشت پناہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کی قیادت نے کھلے عام مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کا عزم کیا ہے۔
جے یو آئی کے رہنماء عبدالرحمان نے کہا کہ دہشت گردوں نے دنیا کو دکھایا ہے کہ ان کا کوئی دین نہیں ہے اور ان کے دل تقدس یا تعظیم کے احساس سے خالی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غالب امکان ہے کہ مدینہ کے دھماکوں میں داعش ملوث ہے، کیونکہ یہ گروہ تمام مقاماتِ مقدسہ سے نفرت کرتا ہے اور کسی بھی مخالف کو "کافر" سمجھتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج، غازی جو کہ انٹرنیشنل سیرت فورم پاکستان کے صدر بھی ہیں، نے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ متحد ہو جائیں اور مدینہ کے حملوں کی تحقیقات کریں تاکہ اس سے مجرموں کی شناخت ظاہر ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نام نہاد مسلمان جنہوں نے دھماکوں کی منصوبہ بندی کی اور انہیں انجام دیا "دیگر مومنین کے لیے باعثِ شرم ثابت ہو رہے ہیں جن کے دلوں میں مکہ اور مدینہ کا اتنا احترام ہے کہ وہ ان دونوں مقدس ترین شہروں میں جان دینا چاہیں گے۔"