رواداری

پاکستانی اساتذہ امن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں

ضیا الرحمٰن

سندھ اور بلوچستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے اساتذہ کراچی میں 28 اپریل کو ایک ورکشاپ میں شرکت کر رہے ہیں۔ سول سوسایٹی گروپ رواداری اور انسداد عسکریت پسندی کو فروغ دینے کے لئے اساتذہ کی تربیت کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمن]

سندھ اور بلوچستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے اساتذہ کراچی میں 28 اپریل کو ایک ورکشاپ میں شرکت کر رہے ہیں۔ سول سوسایٹی گروپ رواداری اور انسداد عسکریت پسندی کو فروغ دینے کے لئے اساتذہ کی تربیت کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمن]

کراچی -- پاکستانی سول سوسائٹی کے گروپ رواداری اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لئے یونیورسٹی کے اساتذہ کی تربیت کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ براۓ مطالعہ امن (پی آئی پی ایس) نے حال ہی میں امن اور رواداری کے فروغ میں اسلامیات کے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے تین ورکشاپس کے ایک سلسلے کا اہتمام کیا۔

پہلی ورکشاپ صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر کی یونیورسٹیوں کے استاتذہ کے لئے کراچی میں 28-27 اپریل کے دوران منعقد ہوئی۔ خیبر پختونخواہ (کے پی) اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے اساتذہ نے مری میں 31-30 مئی کو دوسرے تربیتی سیشن میں شرکت کی۔ جبکہ صوبہ پنجاب اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اساتذہ نے مری میں 2-1 جون کو آخری ورکشاپ میں شرکت کی۔

پی آئی پی ایس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ ایسی تعلیم کا بنیادی مقصد امن سے رہنے کی اپنی صلاحیت پر پاکستانی عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہے۔

رانا نے مزید کہا کہ امید یہ ہے کہ اس تربیت کو حاصل کرنے والے اساتذہ اس مکمل اور رواداری کے پیغام کو اپنے طالب علموں تک پہنچائیں گے۔

رواداری کو فروغ دینے میں اساتذہ کا کردار

تربیتی اجلاسوں میں پڑھانے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ رواداری، عسکریت پسندی کے خلاف تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں یونیورسٹی کے اساتذہ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

رانا نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ اپنی تحقیق میں اور دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے تنقیدی تحقیق کے اوزار کو اپنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا رویہ ان کے نصاب اور تدریس کو خیال آرائیوں سے محفوظ رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ اساتذہ روائتی گھسے پٹے تصورات کو ختم کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر، عبدالحمید نیئر نے کراچی کی نشست میں کہا کہ دلائل کی مدد سے بات چیت، جوابی دلائل اور مخالفین کے خیالات پر غور و فکر، سیکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔

نیئر نے اس نشست میں کہا، " اس سے معاشرے میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی کے لئے جگہ بنانے میں مدد ملے گی۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ماہرین تعلیم کو پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے نصاب میں سماجی ہم آہنگی کے بارے میں سبق شامل کرنے چاہیئِں۔

"انہوں نے کہا، "اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے علم کی بنیاد کو وسیع کریں اور باہمی اتفاق پر مبنی مذہبی ادب کو فروغ دیں۔"

امن کی ثقافت کو پروان چڑھانا

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تمام پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کے سالوں بعد، پاکستان امن کی ثقافت تعمیر کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔

رانا نے کہا کہ اس طرح کے تشدد کے بعد، یہ ورکشاپس امن کی تعلیم کی مہم کا حصّہ ہیں۔

انہوں نے کہا، "اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ کلاس روم میں مذہبی ہم آہنگی اور پُر امن بیانیہ کو فروغ دیں۔"

ورکشاپ کے شرکاء نے رانا کی تشخیص سے اتفاق کیا۔

کراچی سیشن میں شرکت کرنے والے بلوچستان پوسٹ گریجویٹ کالج کے ایک استاد، شاہد بلوچ نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ ورکشاپس سے شرکاء کو یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ وہ اپنے شاگردوں یا طالب علموں کے خیالات اور طرز عمل کو کیسے بدلیں۔

بلوچ نے کہا، "اسلامیات کے اساتذہ امن کی تعلیم عام کرنے والے بن سکتے ہیں۔ [بچوں اور کالج کے طالب علموں تک پہنچنے کے لئے] اساتذہ بلاشبہ مناسب لوگ ہیں۔"

سندھ اور بلوچستان کے اساتذہ اور دینی علماء کے ایک گروپ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آج کے پاکستانی اسکولوں کا نصاب ہم آہنگی کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔

بلوچ نے کہا کہ ناقص درسی کتب کے علاوہ، ایک اور وجہ وہ اساتذہ ہیں جن میں حساس نقطہ نظر کا فقدان ہے۔

بلوچ نے مزید کہا، "اساتذہ کو تمام مذاہب کے طالب علموں کو پڑھانے کے طریقوں پر مناسب تربیت حاصل کرنا چاہئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500