جرم و انصاف

’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف کریک ڈاؤن میں سندھ پولیس حقوق کے فعالیت پسندوں کے ساتھ کام کر رہی ہے

ضیاء الرّحمٰن

سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کلیم امام اور دیگر سینیئر پولیس عہدیداران 30 اگست کو "غیرت کے نام پر قتل" سے متعلقہ واقعات پر بات چیت کرنے کے لیے حقوقِ نسواں کے ایک وفد اور سول سوسائٹی فعالیت پسندوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کلیم امام اور دیگر سینیئر پولیس عہدیداران 30 اگست کو "غیرت کے نام پر قتل" سے متعلقہ واقعات پر بات چیت کرنے کے لیے حقوقِ نسواں کے ایک وفد اور سول سوسائٹی فعالیت پسندوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی – صوبہ سندھ میں پولیس خطے میں بڑھتے ہوئے نام نہاد "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف کریک ڈاؤن میں حقوقِ نسواں اور سول سوسائٹی کے فعالیت پسندوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

پاکستان میں یہ اصطلاح ایسے قتل سے منصوب ہے جو اس رائے پر کیا جائے کہ متاثرہ شخص اپنے خاندان اور کمیونیٹی کے لیے بے عزتی اور شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اکثر قریبی اہلِ خانہ ہی مرتکبین ہوتے ہیں۔

کراچی اساسی حقوقِ نسواں کے ایک خودمختار ادارے عورت فاؤنڈیشن (AF) کی ریزیڈنٹ ہیڈ مہناز رمضان نے کہا، "متاثرین کا قتل خاندان اور قبیلہ کی ساکھ اور عزت کی بحالی کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔"

30 اگست کو کراچی میں سندھ پولیس ہیڈکوارٹرز میں منعقدہ ایک اجلاس میں سربراہ ڈاکٹر کلیم امام اور اعلیٰ پولیس عہدیداران نے اس امر پر بات چیت کرنے کے لیے فعالیت پسندوں کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ حقوقِ نسواں کے ایک ممتاز فعالیت پسند انیس ہارون نے وفد کی قیادت کی۔

2018 کی ایک فائل فوٹو میں کراچی میں حقوق کے فعالیت پسند کراچی پریس کلب کے باہر "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف احتجاج کرتے دکھائے گئے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

2018 کی ایک فائل فوٹو میں کراچی میں حقوق کے فعالیت پسند کراچی پریس کلب کے باہر "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف احتجاج کرتے دکھائے گئے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

امام نےتفتیش کنندگان سے صوبے میں تمام "غیرت کے نام پر قتل" کی تفصیلی رپورٹس تیار کرنے کا کہا ہے، قطہٴ نظر اس کے کہ مقدمہ برخاست ہو گیا یا اس پر پیروی ہوئی۔ سندھ پولیس نے محکمہ کے اندر ایک یونٹ بھی قائم کیا ہے جو حقوقِ انسانی، بطورِ خاص حقوقِ نسواں کے مسائل پر مرتکز ہو گا۔

ہارون، جو ایک حکومتی اختیار کے حامل ادارے، قومی کمیشن برائے حقوقِ انسانی کے ایک رکن بھی تھے، نے کہا کہ پاکستان کے اندر "غیرت" کے نام پر قتل ہونے والے افراد – زیادہ تر خواتین – کی تعداد میں پریشان کن شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کارِ ممنوعہ کی اطلاع

ڈان نے 30 ستمبر کو سندھ پولیس کے اعداد کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ سال کے پہلے چھ ماہ میں صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں 78 افراد، جن میں سے 50 خواتین تھیں، غیرت کے نام پر قتل کا شکار ہوئے، جس کے نتیجہ میں 65 واقعات کا اندراج ہوا۔

15 اگست کو کراچی کے علاقہ گلبرگ کے ایک رہائشی جاوید نے اپنی بیوی خالدہ کو قتل کر دیا اور فرار ہو گیا۔ ایک مقامی پولیس اہلکار رافع تنولی نے کہا کہ یہ غیرت کے نام پر ایک قتل تھا اور پولیس تا حال قاتل کی تلاش میں ہے۔

اگست 2017 میں کراچی کے علاقہ لعل آباد میں ایک خصوصاً وحشت ناک واقعہ میں رشتہ داروں نے مرضی کی شادی کرنے کے خواہشمند ایک جوڑے، 15 سالہ بخت تاج اور 17 سالہ غنی رحمٰن کو بجلی لگا کر قتل کر دیا۔

خود مختار ایجنسیوں، جیسا کہ AF اور پاکستان کمیشن برائے حقوقِ انسانی، جنہوں نے خود بھی غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کو دستاویز کیا، نے تنبیہ کی کہ یہ اعداد مکمل تصویر کی عکاسی نہیں کرتے کیوں کہ زیادہ تر واقعات کی اطلاع نہیں کی جاتی۔

AF کے رحمٰن نے کہا، "زیادہ تر واقعات میں اہلِ خانہ – یہاں تک کہ متاثرین بھی – [اس موضوع سے متعلق] معاشرتی امرِ ممنوعہ ہونے کی وجہ سے تھانوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ متعدد خاندان اس لیے بھی اطلاع نہیں دیتے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں انصاف کبھی نہیں ملے گا۔"

اس کے ساتھ ساتھ، ایسے مقدمات میں سے اکثر میں تحقیقات بے نتیجہ رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ملزمان رہا ہو جاتے ہیں۔

حقوقِ نسواں کے فعالیت پسند ہارون نے کہا، "یہ ایک بڑا چیلنج ہے،"

ڈان نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ مختلف وجوہات کی بنا پر 90 فیصد سے زائد مقدمات عدالتی کاروائی کے منتظر ہیں، اور اکثر واقعات میں پولیس تحقیقات کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل حنیف احمد نے کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں سزاؤں کی شرح نہایت کم رہی ہے۔

احمد نے کہا، "اس کی وجہ قانونی سقم کا وہ حقیقی چیلنج ہےجو مرتکبین – جو بیشتر واقعات میں متاثرین کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں – کی رہائی کا باعث بنتے ہیں کیوں کہ متاثرین کے اہلِ خانہ انہیں معاف کر دیتے ہیں۔"

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف کاوشیں

جبکہ سول سوسائٹی اور حقوقِ نسواں کے گروہ گزشتہ دو دہائیوں سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، تازہ ترین قانون سازی اور عدالتی فیصلوں نے بھی مرتکبین کو انصاف سے بچنے سے روکنے کی کاوشوں کو تقویت دی ہے۔

پاکستان کی پارلیمان نے اکتوبر 2016 میں متفقہ طور پر "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف ایک قانون منظور کیا، جو متاثرہ شخص کے اہلِ خانہ کی جانب سے معاف کر دیے جانے پر بھی ثابت شدہ قاتلوں کو عمر قید – 25 برس قید کے برابر – کی سزا کا اختیار دیتا ہے۔

رواں برس اپریل میں کراچی میں ایک مثالی عدالت – قتل کے مقدمات پر تیز تر کاروائی کےلیے تشکیل دی گئی خصوصی عدالت – نے ایک شخص کو 2012 میں تیموریہ کے علاقہ میں اپنے ایک ایسے دوست کو قتل کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی، جس سے متعلق اسے اپنی بیوی سے مراسم رکھنے کا شبہ تھا۔

ملک کے متعدد علاقوں میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے ایک سلسلہ کے بعد 2016 میں سنّی اتحاد کاؤنسل (SIC) سے منسلک پاکستانی علمائے دین نےایک فتویٰ جاری کیا جس میں حکم لگایا گیا تھا کہ غیرت کے نام پر خواتین کا قتل اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔

SIC مذہبی جماعتوں کا ایک اتحاد ہے جس نے ماضی میں طالبان اور خود کش بم حملوں کے خلاف بھی فتٰویٰ جاری کیے۔

کراچی میں SIC کے ایک رہنما علّامہ رشید نورانی نے کہا، "کسی کو غیرت کے نام پر قتل کرنا مکمل طور پر اسلام کے منافی ہے۔" انہوں نے کہا کہ "غیرت" کے نام پر بجلی لگا کر خواتین کو قتل کیے جانے کے واقعات کی تعداد تنبیہ کن ہے۔

نورانی نے کہا، "یہی درست وقت ہے کہ حکومت، عدلیہ، سول سوسائٹی، میڈیا اور مذہبی طبقہ مشترکہ طور پر ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی وحشیانہ اور غیر اسلامی آفت کے خلاف کام کریں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500