تعلیم

حکام مدرسوں میں تعلیم کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے اصلاحات پر زور دے رہے ہیں

آمنہ ناصر جمال

کراچی کے ایک مذہبی اسکول میں طلباء 2017 میں امتحان دے رہے ہیں۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

کراچی کے ایک مذہبی اسکول میں طلباء 2017 میں امتحان دے رہے ہیں۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

لاہور -- حکومت کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے حکام، مدرسوں میں تعلیم کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے ایک پالیسی نافذ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اس کوشش کا مقصد طلباء کے لیے مواقع کو بہتر بنانا اور نفرت انگیز تقریر کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف (ایس او اے ایس) جرنل قمر جاوید باجوہ، نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے، گزشتہ ماہ مدرسوں کے ایسے طلباء سے ملاقات کی جنہوں نے اس سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کی ہے اور اس کا مقصد مذہبی اسکولوں کی اصلاح کرنا تھا۔

باجوہ نے 21 اگست کو جنرل ہیڈکواٹرز، راولپنڈی میں ایسے 13 طلباء سے ملاقات کی جن میں چار طالبات بھی شامل تھیں، جن کا تعلق اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان (آئی ٹی ایم پی) سے تھا جو کہ پاکستان بھر میں ہزاروں مذہبی اداروں کو منظم کرتا ہے۔

باجوہ نے طلباء کو ان کی کامیابیوں پر مبارک باد دی اور ایسی کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے درست ماحول فراہم کرنے کے بارے میں، والدین اور اساتذہ کے عزم کو سراہا۔

جرنل قمر جاوید باجوہ، 21 اگست کو، جنرل ہیڈکواٹرز، راولپنڈی میں، مختلف مدرسوں کے طلباء میں ایوارڈ تقسیم کر رہے ہیں۔ [آئی ایس پی آر]

جرنل قمر جاوید باجوہ، 21 اگست کو، جنرل ہیڈکواٹرز، راولپنڈی میں، مختلف مدرسوں کے طلباء میں ایوارڈ تقسیم کر رہے ہیں۔ [آئی ایس پی آر]

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، "سی او اے ایس نے کہا کہ مدارس کو مرکزی دھارے کے قومی تعلیمی نظام میں لانے کے لیے اس وقت جاری کوششوں سے، مدارس کے طلباء کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے کہ وہ ذریعہ معاش کے جدید دھاروں میں کامیابی حاصل کر سکیں"۔

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ "انہوں نے طلباء پر زور دیا کہ وہ محنت جاری رکھیں اور خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کے لیے کام کرنا جاری رکھیں اور معاشرے کا مفید شہری بنیں"۔

مدارس کی اصلاحات

انسدادِ دہشت گردی کے قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت، پاکستان کی حکومت مدرسوں کی اصلاح کے لیے کام کرتی رہی ہے اور ان پر پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں، سالانہ آڈٹ رپورٹیں جمع کروائیں اور مقامی اور غیر ملکی ذرائع سے حاصل ہونے والے عطیات کو ظاہر کریں۔

پاکستانی فوج کے مرکزی ترجمان میجر جرنل آصف غفور کے مطابق، مذہبی علماء اور امام، حکومت کے اصلاحی منصوبوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے طلباء جدید مضامین پڑھیں۔

غفور نے ایک بیان میں کہا کہ "اسلامی تعلیم مدرسوں میں سکھائی جاتی رہے گی مگر کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں ہو گی

انہوں نے کہا کہ "اس سے ان اداروں سے گریجوئٹ ہونے والے طلباء کو، ذریعہ معاش کے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا، جس سے نجی اور دوسرے اسکولوں سے آنے والے طلباء فائدہ اٹھاتے ہیں"۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت اور آئی ٹی ایم پی نے 2010 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس نے مدارس کے ہزاروں طلباء کے لیے پاکستان اور بیرونِ ملک جدید تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کو ممکن بنایا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ، مدارس میں تعلیم کے دائرے کو وسیع کرنے سے، طلباء کے مجموعی تعلیمی معیار میں اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں ان کے لیے روزگار کے مواقع بہتر ہوئے ہیں اور سیکورٹی کی صورتِ حال پر مثبت اثر پڑا ہے۔

صوبہ پنجاب کے محمد اقرار، جن کا بیٹا مقامی مدرسے کا طالبِ علم ہے، کہا کہ "حکومت غریب بچوں کو تعلیم دینے میں ناکام رہی ہے اور صرف مدرسے ہی مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "صرف کم آمدنی والے طلباء ہی ان مدرسوں میں جاتے ہیں۔ اگر حکومت ان طلباء کی مدد کرے تو اس سے بھی تبدیلی آئے گی"۔

ایک نیا نصاب

پاکستان میں مدرسوں کی ایک بڑی تعداد،حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے اور مرکزی دھارے کے نصاب کی بہت ہی قلیل مقدار کو فراہم کرتے ہیں۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم کے وزیر شفقت محمود نے ایک انٹرویو میں کہا کہ نظرثانی کے ختم ہو جانے کے بعد، پورے ملک میں ایک یکساں نصاب، نافذ کیے جانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدارس جدید مضامین بھی پڑھائیں گے اور ان مضامین کا امتحان انٹرمیڈیٹ اینڈ اسکینڈری ایجوکیشن کا وفاقی بورڈ لے گا۔

لیفٹینٹ جرنل (ریٹائرڈ) نصیر خان جنجوعہ نے کہا کہ "ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت نے مدارس میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لیے، مماثل نصاب متعارف کروایا ہے"۔

جنجوعہ نے کہا کہ "حکومت نے مدارس کے طلباء کو تعلیمی نظام کے مرکزی دھارے میں جذب ہونے کے قابل بنانے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ جس سے وہ پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہری کی طرح، کسی بھی پیشے کو اپنانے کے تمام مواقع حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ "مدارس کے طلباء پاکستان کے شہری ہیں اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ اعلی تعلیم کے پیشہ ورانہ راستوں اور بہت سے دوسرے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500