دہشتگردی

دہشت گردی کے آن لائن حامیوں کو دنیا بھر میں حکام کی جانب سے سخت جانچ پڑتال کا سامنا

از ضیاء الرحمان

اس سال کے اوائل میں جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو کا سکرین شاٹ جس میں حامیوں کو 'ڈیجیٹل جہاد' میں مشغول دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

اس سال کے اوائل میں جاری ہونے والی داعش کی ایک ویڈیو کا سکرین شاٹ جس میں حامیوں کو 'ڈیجیٹل جہاد' میں مشغول دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

کراچی -- دنیا بھر میں حکام ایسے افراد اور گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہے ہیں جو سماجی روابط کے ذرائع کو "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ان کوششوں میں سے چند ایک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کمپیوٹر اور نیٹ ورک سرورز کو قبضے میں لینا نیزدہشت گرد گروہوں بشمول داعش کی جانب سے استعمال کیے جانے والے انٹرنیٹ پورٹلوں کو بلاک کرناشامل ہے۔

ایسے افراد جو دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اور نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتی کر رہے ہیںان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے قانون کے نفاذ کے عالمی اداروں کی جانب سے حوصلہ افزائی پا کر، پاکستان اور افغانستان میں حکام سخت اقدامات کرتے رہے ہیں۔

اس کی تمثیل بیان کرنے والے واقعات سعد عزیز اور نورین لغاری ہیں - دو طالب علم اور طالبہ جنہیں پاکستانی حکام نے داعش کے پراپیگنڈہ کے ذریعے متعصب ہونے کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔

27 سالہ عزیز نے مقامی انتہاپسند گروہ میں شمولیت اختیار کی، جو داعش کے سوشل میڈیا پیغامات سے متاثر تھا، اور اس نے کراچی میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔

اس سال ایک عدالت نے اسے سنہ 2015 میں کراچی میں ایک امریکی استاد کو قتل کرنے کی کوشش کرنے پر 20 سال سزائے قید سنائی تھی۔

دریں اثناء، اپریل 2017 میں، اس وقت اسی ضلع میں حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے میڈیکل سکول، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (لمز) میں سالِ دوم کی طالبہ، کو لاہور میں داعش کے ایک سیل پر فوجی چھاپے میں پکڑا گیا تھا۔

لغاری، جو لاہور میں ایسٹر کی شام ایک مسیحی تقریب پر خود کو بم سے اڑانا چاہتی تھی، اسے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے داعش کی جانب سے بھرتی کیا گیا تھا۔

حکام نےبعد ازاں یہ کہتے ہوئے اسے آزاد کر دیا تھا کہ داعش نے اسے دھوکہ دیا تھا۔

ہمسایہ ملک افغانستان میں، حکام نے اپریل میں کابل میں داعش کا ایک سوشل میڈیا گروپ کو توڑا تھا، جس سے عسکریت پسندوں کی پراپیگنڈہ صلاحیتیں کمزور ہو گئیں۔

گروپ کے ارکان کے 60 سے 80 سوشل میڈیا اکاؤنٹ تھے۔ ان کا کام داعش کو فروغ دینا، حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا، قبائلی نفرتوں کو ہوا دینا اور نوجوانوں اور طلباء و طالبات کو عسکریت پسند تنظیم کے لیے بھرتی کرنا تھا۔

اس میں امریکہ میں، الینوئے ریاست میں بوسنیا نژاد طالبہ، مدیحہ سالکسوک کو گزشتہ جون میں شام میں دہشت گرد باغیوں کی حمایت کرنے پر ساڑھے چھ سال سزائے قید دی گئی تھی۔ وکلائے استغاثہ نے کہا کہ سالکسوک اور اس کے ساتھی ملزمان نے داعش سے منسلک دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی اپنی کوششوں میں سوشل میڈیا پر خفیہ زبان استعمال کی تھی۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا سے داعش کے ایک حامی، عامر سینان الحگاگی کو فروری میں شناخت چرانے اور دہشت گرد تنظیم کی معاونت کرنے کی کوشش کرنے پر سزا سنائی گئی تھی۔ اسے آن لائن یہ کہنے پر گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ہم جنس پرستوں کے شبینہ کلبوں اور کالج کے ہوسٹلوں پر بم حملے کر کے "دہشت کی تعریفِ نو" کرنا چاہتا ہے اور اسے ایسے افراد کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے میں مدد کرنے کے لیے لگ بھگ 16 سال سزائے قید دی گئی تھی جو اس کے خیال میں داعش کے حامی تھے۔

کراچی کے مقامی ایک محقق، افضل نعیم جو سوشل میڈیا ٹرینڈز کی نگرانی کرتے ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا، "سائبر کرائم قوانین کا سختی سے اطلاق آن لائن انتہاپسندی کے اس بہت بڑے چیلنج پر قابو پانے کے لیےبلاشبہ بہت ضروری ہے۔"

نعیم نے کہا، "دنیا بھر کے لوگ، خصوصاً نوجوان، اس کا احساس کیے بغیر انتہاپسند نظریات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور، چند صورتوں میں، دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو جاتے ہیں۔"

دہشت گرد پراپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا

پاکستان میں، "دہشت گردی کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف اقدامات" اُس نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے ایک نکتہ ہے، جو کہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک حکمتِ عملی ہے جسے حکومت نے دسمبر 2014 میں پشاور میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سکول کے 100 سے زائد بچوں کو ہلاک کرنے کے بعد اختیار کیا تھا۔

جنوری 2015 کے بعد سے، پاکستانی وزارتِ اطلاعات و ٹیکنالوجی نے 25،000 سے زائد ویب سائٹوں کو بلاک کیا ہے جنہیں دہشت گرد گروہ بشمول داعش چلا رہے تھے۔

لاہور کے مقامی ایک سیکیورٹی اہلکار، احسن علی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خصوصاً وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے کئی کمپیوٹر سسٹم قبضے میں لیے ہیں۔

مارچ 2018 میں، ایف آئی اے نے کراچی میں داعش کے ایک سوشل میڈیا مینیجر، عمران عرف سیف الاسلام کو گرفتار کیا تھا۔ اس پر نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیم کے لیے ورغلانے کا الزام ہے۔

عمران ابھی تک تحقیقاتی کارروائیوں کے لیے زیرِ حراست ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں، نے کہا، "تحقیقات کے دوران، یہ معلوم ہوا کہ داعش کے جنگجو، بشمول عمران، نوجوانوں، خصوصاً خواتین، کو بھرتی کرنے کے لیے کم مشہور سوشل میڈیا ایپلیکیشنز جیسے کہ ٹیلیگرام استعمال کرتے ہیں۔"

گزشتہ برس، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)، ایک سرکاری ادارہ جو ملک کی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملیاں تیار کرنے کا ذمہ دار ہے، نے سرف سیف نامی ایک آن لائن رپورٹنگ پورٹل تیار کیا تھا جس کا مقصد آن لائن انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔

نوجوانوں کی بھرتی پر نظر رکھنا

افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں اس سال کے اوائل میں عراق اور شام میں داعش کی علاقائی شکستوںکے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئی ہیں اور اس وقت میں جب تنظیم نے اپنی توجہ دو جنوبی ایشیائی ممالک پر مرکوز کی ہے۔

تجزیہ کاروں اور سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں، داعش نے -- موجودہ مقامی دہشت گرد گروہوں کی بھرتی کے علاوہ -- یونیورسٹی کے طلباء و طالبات اور ماہرین کو بھرتی پرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے، دہشت گرد گروہ نے حملے کرنے، چندہ جمع کرنے اور پراپیگنڈہ کرنے کے کاموں کے لیے نئے لوگ بھرتی کرنے کی کوشش کی ہے۔

ٹیکنالوجی کی کمپنیاں انتہاپسند گروہوں کی جانب سے کی گئی پوسٹوں کو کچلنے کے لیے کوششیں تیز کر رہی ہیں کیونکہ گروپ ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ ماہر ہو رہے ہیں۔

گوگل اور فیس بُک -- مشہور ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارموں میں سے دو -- نے ایسے پروگراموں پر سرمایہ کاری کی ہے جن کا مقصد دہشت گرد تنظیموں، بشمول داعش کی سرگرمیوں کے لیے اپنے پلیٹ فارموں کی چھان بین کرنا ہے۔

گوگل کی جانب سے تیار کردہ ایک ٹیکنالوجی انکوبیٹر، جگسا، نے جولائی 2017 میں ایک پروگرام شروع کیا تھا جسے ری ڈائریکٹ میتھڈ کہتے ہیں جو ایڈ ورڈز اور یو ٹیوب ویڈیوز کو ان بچوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے جو تعصب پسندی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اسی طرح، فیس بُک کا کہنا ہے کہ اس نے سنہ 2018 کی تیسری سہ ماہی مین داعش اور القاعدہ کے پراپیگنڈہ پر مشتمل 3 ملین سے زائد چیزوں کو ہٹانے کے لیے مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے امتزاج کو استعمال کیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500