انتخابات

قبائلی اضلاع کی کے پی انتخابات میں شمولیت دہشتگردی کی بیخ کنی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے

غلام دستگیر

13 جولائی کو قبائلی ضلع مہمند میں ایک انتخابی ریلی میں شریک ہیں۔ [غلام دستگیر]

13 جولائی کو قبائلی ضلع مہمند میں ایک انتخابی ریلی میں شریک ہیں۔ [غلام دستگیر]

غالانئی – جولائی کے دوسرے ہفتے کی ایک گرم سہ پہر میں پنڈیالی کے کئی گھنٹوں پر محیط دورے کے بعد نثار خان مومند تھکے ماندے ضلع مہمند میں اکّا گھنڈ میں اپنے ہجرہ کو جا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا (کے پی) اسمبلی کی نشست PK-103 کے لیے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن کے طور پر لڑنے والے مومند ایک آئندہ انتخابی ریلی، جس میں پارٹی کی مرکزی قیادت کی شرکت متوقع ہے، کے لیے ایک مناسب جگہ کے انتخاب کے بعد ابھی لوٹے ہیں۔

22.8 ملین قبائلی باشندوں—تقریباً 1.7 ملین مرد اور 1.1 ملین خواتین—کے پاس20 جولائی کو اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ہو گا۔ وہ کے پی اسمبلی کے 16 ارکان کا انتخاب کریں گے۔

2018 میں سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے صوبہ میں انضمام کے بعد یہ انتخابات پہلی مرتبہ سابقہ قبائلی علاقہ جات کو اسمبلی میں نمائندگی دیں گے۔

19 جولائی کو باجوڑ کے قبائلی ضلع میں حکام انتخابی مواد تقسیم کر رہے ہیں۔ [حنیف اللہ]

19 جولائی کو باجوڑ کے قبائلی ضلع میں حکام انتخابی مواد تقسیم کر رہے ہیں۔ [حنیف اللہ]

13 جولائی کو قبائلی ارکان ضلع مہمند میں ایک انتخابی کارنر میٹنگ میں شریک ہیں۔ [غلام دستگیر]

13 جولائی کو قبائلی ارکان ضلع مہمند میں ایک انتخابی کارنر میٹنگ میں شریک ہیں۔ [غلام دستگیر]

50 سالہ مومند نے کہا کہ قبائلی پٹی میں ایکمستحکم سیاسی نظام نہ صرف باشندوں کو منتخب ارکان کے ذریعے مسائل حل کرنے کا ایک موقع فراہم کرے گا، بلکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ بھی کرے گا۔

پرانے نظام میں، فاٹا کے ارکانِ قومی اسمبلی سینیٹرز کا انتخاب کرتے تھے، اور یہ عمل ووٹوں کی خریداری کا باعث بنتا تھا۔

اب کے پی کے قبائلی اور آباد اضلاع کے اراکینِ صوبائی اسمبلی مشترکہ طور پر سینیٹ کے ارکان منتخب کریں گے۔

مومند کے مطابق، یہ تبدیلی قبائلی اضلاع میں سیاسی روایات کے استحکام کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی فروخت کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ڈالنے میں نہایت کارآمد ہو گی۔"

شدت پسندی کی انسداد

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے باجوڑ اور خیبر کے ہر دو اضلاع کے لیے تین تین نشستیں؛ مہمند، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع کے لیے دو دو نشستیں؛ اور ضلع اورکزئی اور سرحدی علاقوں کے چھ اضلاع کے لیے ایک ایک نشست مختص کی ہے۔

16 نشستوں کے لیے تقریباً 285 امّیدواران کھڑے ہیں۔ کل 1897 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔

اگست 2011 تک فاٹا میں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہ تھی، تاآنکہ حکومتِ پاکستان نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کو اس خطے تک توسیع دے دی، جو کہ سیاسی ریلیوں اور دیگر تقریبات کی اجازت دیتا ہے۔

قبل ازیں، جماعتِ اسلامی (JI) اور جمیعت علمائے اسلام فضل (JUI-F) سمیت مذہبی جماعتوں نے اپنے سیاسی نظریہ کے فروغ کے لیے مساجد اور مدرسوں کا استعمال کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت ایک فائدہ حاصل کر لیا تھا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک حقوق کے فعالیت پسند سعید افضل شنواری نے کہا، "مذہبی اجتماعات کی آڑ میں صرف سیاسی-مذہبی جماعتیں ہی اپنے عوامی اجلاس منعقد کر سکتی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "بالاخر اس کا نتیجہ … شدت پسندی رہا، جس نے سیاسی سرگرمیوں کی روک سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا۔"

تب سے مرکزی دھارے کی تقریباً ہر سیاسی جماعت نے سابقہ فاٹا میں تحصیل اور دیہات کی سطح پر خود کو مںظم کیا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور قبائلی امور کے ایک عالم شمس مومند کے مطابق، سیاسی مزاکرے عوامی رائے کو ڈھالنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "سیاسی سرگرمیاں نوجوانوں کے اس حصے کو ایک متبادل انتخاب پیش کریں گے جو تا حال عسکریت پسندی کے دام میں ہیں اور جو شدت پسندانہ رجحانات کی جانب مائل ہیں۔"

ضلع مہمند میں PK-104 سے انتخاب لڑنے والے ایک آزاد امّیدوار زاہد خان نے اس سے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا، "قبائلی پٹی میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بالآخر امن و ترقی میں کردار ادا کرے گا، جو کہ بالآخر خطے میں شدت پسندی کی بیخ کنی کا باعث ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500