سلامتی

غنی کے دورۂ اسلام آباد نے تعاون، طالبان کے ساتھ جنگ کے خاتمے کی امید دلائی ہے

از ضیاء الرحمان

افغان صدر اشرف غنی (بائیں) کا 27 جون کو اسلام آباد آمد پر ایک اعزازی گارڈ کی جانب سے استقبال کیا گیا۔ [پاکستانی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ]

افغان صدر اشرف غنی (بائیں) کا 27 جون کو اسلام آباد آمد پر ایک اعزازی گارڈ کی جانب سے استقبال کیا گیا۔ [پاکستانی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ]

اسلام آباد -- افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات (27 جون) کے روز پاکستان کا ایک دو روزہ سرکاری دورہ اس امید کے ساتھ شروع کیا ہے کہ بات چیت طالبان کے ساتھ جھگڑے کے ایک سیاسی تصفیئے تک پہنچنے میں مدد کرے گی۔

غنی وزراء، مشیران، اعلیٰ عہدیداروں اور کاروباری افراد کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے، جن میں قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب، قومی ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے چیف معصوم ستانکزئی اور قائم مقام وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی شامل تھے۔

غنی نے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ الگ الگ ملاقات کی اور کئی شعبوں اور علاقائی سلامتی میں تعاون پر تبادلۂ خیال کیا۔

ان کی صدر عارف علوی کے ساتھ ملاقات بھی متوقع ہے۔

افغان صدر اشرف غنی (بائیں) 27 جون کو اسلام آباد میں وزیرِ اعظم عمران خان (دائیں) کے ہمراہ۔ [پاکستانی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ]

افغان صدر اشرف غنی (بائیں) 27 جون کو اسلام آباد میں وزیرِ اعظم عمران خان (دائیں) کے ہمراہ۔ [پاکستانی پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ]

بدھ (26 جون) کے روز ایک بیان میں دفترِ خارجہ نے کہا کہ فریقین کے مابین وسیع انواع کی گفتگوئیں متنوع شعبوں، بشمول سیاست، تجارت، معیشت، دفاع، امن اور مصالحت، تعلیم اور عوام کے آپسی تبادلوں میں تعاون کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوں گی۔

غنی لاہور میں ایک تجارتی فورم میں شرکت کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جس میں دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے کاروباری قائدین شرکت کریں گے۔

روابط بہتر بنانے کا ایک موقع

مبصرین کا کہنا ہے کہ غنی کا دورۂ پاکستان، پاکستانی-افغان روابط میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

انہوں نے بہت سے افغان سیاستدانوں، جو زیادہ تر حزبِ اختلاف سے تھے اور ان میں کئی صدارتی امیدوار شامل تھے، کے اتوار (23 جون) کے روز مری میں ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد یہ سفر کیا ہے۔

سیاست اور پاک افغان امور پر اسلام آباد کے مقامی تجزیہ کار، حسن خان نے کہا کہ غنی کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان نے طالبان کے ساتھ ایک سیاسی تصفیئے کی حمایت کرنے اور افغانستان میں دہائیوں پر مشتمل جنگ ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس روابط میں بہتری لانے اور بداعتمادی پر قابو پانے سے حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے۔

حسن نے کہا، "دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان، ناصرف امن بلکہ تعلقات، بشمول تجارت، پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کی حزبِ اختلاف کے اہم قائدین، بشمول وہ جو مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں، کو مری کانفرنس میں مدعو کرتے ہوئے مشغول کیا ہے۔

حسن نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ غنی پر "ان کے پاکستان کے دورے پر افغانستان میں کوئی تنقید نہیں ہو گی کیونکہ افغانستان کے زیادہ تر سیاسی رہنماء جو افغانستان کے معاملات میں پاکستان کے کردار کے ناقد ہیں چند روز قبل خود مری کانفرنس میں شریک تھے۔"

امن کا ہدف

وزیرِ اعظم خان نے 1 جون کو مکہ، سعودی عرب میں 14 ویں اسلامی سربراہی کانفرنس میں ملاقات کے دوران غنی کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ستمبر 2014 کے آخر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یہ غنی کا دوسرا اور گزشتہ برس خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلا دورہ ہے۔

خان نےملک میں عام انتخابات جیتنےکے بعد، کھلی سرحدوں اور آزادانہ تجارت پر زور دیتے ہوئے افغانستان کے ساتھ روابط کو پروان چڑھانے کا عزم کیا تھا۔

یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مشغول ہے اور افغانستان میں دہائیوں پر محیط جنگ کے سیاسی حل پر پہنچنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

امن عمل میں معاونت کے لیے، محب نے مئی کے اواخر میں وسیع انواع کے امور پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

جنوری میں،امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغان مصالحت، زلمے خلیل زاد اورمحمد عمر داؤدزئی، غنی کے خصوصی ایلچی برائے امن اور علاقائی ہم آہنگی، نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھاتاکہ امن عمل میں معاونت کی جائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500