حقوقِ انسانی

پاکستان کی جانب سے چینی مجرم گروہوں کی 'دلہنوں کی اسمگلنگ' کے خلاف کارروائی

از ضیاء الرحمان

15 اپریل کو کراچی کی عیسائی خواتین قیوم آباد علاقے میں ایک گرجا گھر کے اجتماع میں شریک ہیں۔ چینی مجرم گروہوں کی جانب سے 'دلہنوں کی اسمگلنگ' کے لیے عیسائی مرکزی ہدف ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

15 اپریل کو کراچی کی عیسائی خواتین قیوم آباد علاقے میں ایک گرجا گھر کے اجتماع میں شریک ہیں۔ چینی مجرم گروہوں کی جانب سے 'دلہنوں کی اسمگلنگ' کے لیے عیسائی مرکزی ہدف ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- پاکستان چینی مجرم گروہوں کی جانب سے نوجوان لڑکیوں کی 'دلہنوں کی اسمگلنگ" کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جو سرحد پار زیادہ خوشحال زندگی کے جھوٹے وعدوں کے ساتھ غریب لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔

دلہنوں کی اسمگلنگ پر توجہ اس وقت زیادہ ہو گئی تھی جب پچھلے مہینے اے آر وائی نیوز نے ایک تحقیقاتی رپورٹ نشر کی تھی جس میں لاہور میں رشتے کروانے کے ایک غیر قانونی مرکز میں پاکستانی خواتین -- بشمول دو نوعمر لڑکیوں -- کے ساتھ کئی چینی مردوں کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔

اے آر وائی نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان خواتین اور لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے 400،000 روپے (2،760 ڈالر) وصول کیے تھے اور ان سے مستقبل میں 40،000 روپے (276 ڈالر) ماہانہ، اور ساتھ خاندان کے ایک مرد کے لیے چینی ویزے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق چینی مجرم گروہوں کی جانب سے چلائے جانے والے بہت سے رشتے کروانے والے غیر قانونی مراکز پنجاب میں فعال ہیں اور ان کی بنیادی توجہ عیسائی برادری پر مرکوز ہے۔

انہوں نے صوبہ پنجاب میں بینر آویزاں کیے ہیں جن پر لکھا ہے "چین کے لیے مستحق، غریب اور اچھے گھرانے فوری درکار ہیں" اور یہ کہ "چینی خاندان تمام اخراجات برداشت کریں گے۔"

فیصل آباد کے ایک مقامی پادری، پاسٹر ایوب جان نے کہا، "زیادہ تر پاکستانی عیسائی ناخواندہ اور مالی طور پر غریب ہیں، اور اس لیے وہ آسانی سے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ جب چین میں پہنچ جاتی ہیں، تو لڑکیاں -- زیادہ اکثریت سے خلافِ مرضی بیاہی جاتی ہیں -- خود کو دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں تنہا، بدسلوکی کے لیے حساس اور کسی سے رابطہ رکھنے سے قاصر پاتی ہیں۔"

ملک بھر میں گرجا گھروں نے عیسائی برادری کو چینی مجرم گروہوں کی جانب سے چلائے جانے والے غیر قانونی رشتہ کروانے والے مراکز کے بارے میں متنبہ کرنے کے لیے آگاہی کی ایک مہم چلائی ہے۔

جان نے کہا کہ "آرام دہ زندگی کے وعدوں کے ساتھ باآسانی لبھائی جانے والی غریب لڑکیوںکی زندگیاں بچانے کی ضرورت ہے جو دراصل جھانسے میں آ جاتی ہیں اور غیر قانونی طور پر چین بھیج دی جاتی ہیں۔"

کریک ڈاؤن جاری

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ان مجرم گروہوں کا تعاقب کرتی رہی ہے اور اس نے دلہنوں کے اغواء میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک درجن سے زائد چینی باشندوں اور مقامی افراد کو گرفتار کیا ہے۔

ایف آئی اے کے انسانوں کی غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے والے سیل نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے 1 مئی کو فیصل آباد میں شادی کی ایک تقریب پر چھاپہ مارا تھا اور ایک مجرم گروہ کے ارکان کو گرفتار کیا تھا، جن میں چینی دولہا بھی شامل تھا جس کی شناخت چانگ کے نام سے ہوئی تھی۔

7 مئی کو، ایف آئی اے نے لاہور میں ,10 چینی باشندوں کو تین مشتبہ مقامی ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ دھوکہ دہی، دو نمبری اور غیر قانونی انسانی نقل و حمل کے الزمات میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں مختلف چھاپوں کے دوران تین دیگر چینی باشندوں اور چار مقامی افراد کو گرفتار کیا گیا۔

پھر 10 مئی کو، ایف آئی اے نے نقلی شادیاں کر کے پاکستانی خواتین کو غیر قانونی طور پر چین بھیجنے کے الزامات میں 11 چینی باشندوں کو لاہور کی ایک عدالت میں بھیجا تھا۔

12 مئی کو ایک بیان میں دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا، "وزارتِ خارجہ امور اور چین میں پاکستانی مشن صورتحال کی بغور نگرانی کر رہے ہیں اور پاکستانی شہریوں کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں جنہیں اس معاملے پر کوئی بھی شکایات ہو سکتی ہیں۔"

چینی مجرم گروہوں کے متعلق پریشانیاں

چینی باشندوں کی جانب سے لڑکیوں کی غیر قانونی نقل و حمل پر تشویش چینی مجرم گروہوں کی جانب سے انجام دیئے گئے دیگر جرائم کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔

کراچی میں اے ٹی ایم مشینوں سے چوری کے ساتھ تعلق ہونے پر کئی چینی باشندوں کی گرفتاری کے بعد پاکستانی حکام نے متنبہ کیا کہ جرائم پیشہ چینی نیٹ ورک ملک میں اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ گڑبڑ کر رہا ہے۔

اے ٹی ایم مشینوں میں گڑبڑ میں کارڈوں سے ذاتی معلومات چرانے کے لیے مشینوں کے ساتھ لگائے گئے خفیہ الیکٹرانک آلات کا استعمال شامل ہے۔

13 جنوری ۲۰۱۸کو کراچی پولیس نے ڈیفنس کے نواح میں تین چینی باشندوں کو گرفتار کیا تھا اور 2.3 ملین روپے (15،900 ڈالر) برآمد کیے تھے۔ گروہ کے دو دیگر ملزم ارکان گرفتاری سے بچ گئے تھے۔

10 جنوری ۲۰۱۸کو، کراچی پولیس نے دو چینی مردوں کو گرفتار کیا تھا جو ایک مقامی بینک کی اے ٹی ایم مشین میں ایک ڈیٹا چرانے والا آلہ نصب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کراچی کے ایک بینکار، ظہیر الدین نے کہا کہ حکومت کو پاکستان میں چینی جرم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

ظہیر الدین نے کہا، "اے ٹی ایم میں چوری کرنے میں ملوث چینی مجرموں کی گرفتاریوں نے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے شہریوں میں حیرت کی لہر دوڑا دی تھی، اور اب دلہنوں کی اسمگلنگ کا یہ دھندہ سامنے آ گیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اس امر کو جاننا اور احتساب کرنا زیادہ ضروری ہے کہ چینیوں نے کیسے ہمارے اداروں کی مدد سے یہ وحشیانہ کھیل کھیلا۔

جواب