دہشتگردی

لاہور میں داتا دربار پر ہونے والے خونریز خودکش دھماکے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کر لی

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سی سی ٹی وی فوٹیج میں 8 مئی کو لاہور میں داتا دربار کے باہر ایک خودکش بمبار کو خود کو بم سے اڑاتے دکھایا گیا ہے۔ [پنجاب پولیس]

لاہور -- بدھ (8 مئی) کو لاہور میں پاکستان کے ایک قدیم ترین اور مشہور ترین صوفی بزرگ کے دربار کے باہر ایک خودکش بم دھماکے میں کم از کم 10 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہو گئے، اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔

دھماکہ 11 ویں صدی کے داتا دربار پر خواتین معتقدین کے لیے مخصوص داخلی دروازے کے قریب ہوا، جو کہ جنوبی ایشیاء میں سب سے بڑے صوفی مزاروں میں سے ایک ہے، اور اس وقت ہوا ہے جبملک میں رمضان کا مقدس مہینے کا آغاز ہوا ہے۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل عارف نواز نے صحافیوں کو بتایا، "ایک 14 سے 16 سالہ خودکش بمبار، جس کی جیکٹ میں 7 سے 8 کلوگرام بارودی مواد تھا، نے خود کو مزار کے گیٹ نمبر 2 پر پولیس کی ایک موبائل وین کے قریب دھماکے سے اڑا دیا۔

ایک کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے نے دکھایا ہے کہ جب دھماکہ ہوا تو ایک لڑکا پولیس وین کے قریب آیا تھا۔

8 مئی کو لاہور میں ایک صوفی کے مزار کے باہر سیکیورٹی اہلکار بم دھماکے والی جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

8 مئی کو لاہور میں ایک صوفی کے مزار کے باہر سیکیورٹی اہلکار بم دھماکے والی جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

8 مئی کو ایک ہسپتال میں طبی عملہ لاہور میں داتا دربار کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے کے متاثرین کو طبی امداد دیتے ہوئے۔ [عبدالناصر خان]

8 مئی کو ایک ہسپتال میں طبی عملہ لاہور میں داتا دربار کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے کے متاثرین کو طبی امداد دیتے ہوئے۔ [عبدالناصر خان]

پنجاب کے وزیر برائے صنعت، تجارت و سرمایہ کاری، میاں اسلم اقبال نے کہا کہ بم دھماکہ "صبح تقریباً 8:45 بجے ہوا، مگر خوش قسمتی سے بمبار مزار میں داخل نہیں ہو سکا،" جس سے اموات کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتی تھی۔

جب سب سے پہلے پہنچنے والے ابتدائی طبی امداد دینے والے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیا تو دھماکے سے تباہ ہونے والی گاڑی کا ڈھانچہ مزار کے قریب ایک فٹ پاتھ کے قریب بکھرا ہوا تھا۔

دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر میو ہسپتال پہنچایا گیا، اور زیادہ تر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کو جان لیوا چوٹیں نہیں لگی ہیں۔

ایک خاتون نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں اپنے 15 سالہ بیٹے مدثر کو تلاش کر رہی ہے۔

اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مدثر اپنے کام پر جا رہا تھا، مگر وہ اپنی منزل پر نہیں پہنچا۔ مجھے نہیں پتہ کہ کیا مدثر محفوظ ہے، اور یہاں کوئی بھی میری مدد نہیں کر سکتا۔"

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو اپنے بیٹے کی فکر تھی۔

اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب دھماکہ ہوا اس وقت ہم دونوں داتا دربار کے قریب سے گزر رہے تھے۔ ہم دونوں زخمی ہوئے، مگر اب مجھے نہیں معلوم کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔"

خیبرپختونخوا میں بی بی سی کے ایک نامہ نگار، رفعت اورکزئی کے مطابق، حزب الاحرار (ایچ اے)، جو کہ جماعت الاحرار (جے اے) -- جو خود بھی ٹی ٹی پی کا ایک دھڑا ہے-- کا ایک دھڑا ہے، نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

دہشت گردوں کا نشانہ

وزیرِ اعظم عمران خان نے دھماکے کی مذمت کی ہے، انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومتِ پنجاب سے زخمیوں اور متاثرین کے لواحقین کو تمام ضروری امداد فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔

ایک عالمِ دین اور لاہور میں مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے ڈائریکٹر، حافظ عبدالرحیم اشرفی نے بھی دھماکے کی مذمت کی ہے۔

ایک بیان میں اشرفی نے کہا، "بے گناہوں کا قتل دہشت گردوں کی جانب سے ایک پاگل پن، غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل ہے۔"

دربار ایک طویل عرصے سے رنگ رنگ صوفی تہواروں کا مرکز رہا ہے اور ملک کے لاتعداد مسلمان فرقوں کے لیے ایک مقدم مقام ہے،جو اسے دہشت گرد حملوں کے لیے آسان ہدف بناتا ہے۔

اسے ماضی میں بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ سنہ 2010 میں مزار پر ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں 40 سے زیادہ جانیں گئی تھیں۔

اس کے بعد سے، علاقہ سخت حفاظتی حصار میں رہتا ہے، جس میں زائرین کو مزار کے احاطے میں داخل ہونے سے قبل تلاشی کے کئی مراحل میں سے گزرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

صوفی معتقدین، جو اسلام کی ایک صوفیانہ شکل کے پیروکار ہیں، کو پاکستان میں اسلامی عسکریت پسندوں -- بشمول "دولتِ اسلامیہ" (داعش) -- کی جانب سے اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جو صوفیانہ عقائد اور مسلمان صوفیاء کے مزارات پر ادا کی جانے والی رسوم کو بدعت سمجھتے ہیں۔

پاکستان کی انتہاپسندی کے خلاف لڑائی ملک کے سب سے زیادہ خونریز دہشت گرد قتلِ عام --سنہ 2014 میں پشاور میں ایک اسکول پر حملےکے بعد بہت تیز ہو گئی تھی جس میں 150 سے زائد افراد، زیادہ تر بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔

اس کے بعد سے امن و امان کی حالت میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے، تاہم عسکریت پسندوں کی ڈرامائی طور پر حملے کرنے کی صلاحیت برقرار رہی ہے۔

[عبدالناصر خان نے لاہور سے اس رپورٹ میں حصہ لیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

تم نے اپنے الفاظ کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ مثلاً یہاں ہماری کوئی مدد نہیں کرتا اور تلاشی پر مجبور کیا جاتا ہے وغیرہ۔

جواب