معاشرہ

پاکستانی کارکنان کی جانب سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف مہم میں مزید تعاون کا مطالبہ

از جاوید خان

گزشتہ دسمبر میں پشاور میں ایک مقامی اسکول کے بچے ایک چٹکلے میں حصہ لیتے ہوئے۔ فروری میں حکومت نے بچوں کے ساتھ زیادتی سے عوامی آگاہی کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ [جاوید خان]

گزشتہ دسمبر میں پشاور میں ایک مقامی اسکول کے بچے ایک چٹکلے میں حصہ لیتے ہوئے۔ فروری میں حکومت نے بچوں کے ساتھ زیادتی سے عوامی آگاہی کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ [جاوید خان]

پشاور -- بچوں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو بچوں کے ساتھ زیادتی سے آگاہی میں اضافہ کرنے کی اپنی کوششوں کو وسیع کرنے نیز سخت تر قوانین کا اطلاق کرنے کی ضرورت ہے۔

فروری میں وزارتِ انسانی حقوق نے ٹی وی اور ریڈیو پر اور اخبارات میں اشتہارات، نیز مجالسِ مذاکرہ کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا تھا۔

بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ برے سلوک کے دیگر ممکنہ منفی نتائج کے علاوہ، بدسلوکی اور غفلت کا نشانہ بننے والے بچوں میں انتہاپسند گروہوں اور پرتشدد جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے کی حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔

پشاور کے حقوقِ اطفال کے ایک کارکن، ارشد محمود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بچوں اور والدین میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹی وی اشتہارات ایک بہت اچھی پہل کاری ہے؛ تاہم، نچلی سطح سے لے کر فیصلہ سازی کی سطح تک سے تعلق رکھنے والے تمام حصہ داروں کو اس میں ملوث کرنے کے لیے اس کا دائرۂ کار وسیع ہونا چاہیئے۔"

9 جنوری کو لاہور میں بچے دریا کے کنارے ایک کشتی پر کھیل رہے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

9 جنوری کو لاہور میں بچے دریا کے کنارے ایک کشتی پر کھیل رہے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

محمود نے حکومت کو سول سوسائٹی تنظیموں اور وزارتِ انسانی حقوق کی ایک مشترکہ مہم "بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف پاکستانی" (پی اے سی اے) کے نام سے ایک قومی مہم چلانے کی تجویز دی۔

محمود نے کہا کہ مہم میں "کے پی [خیبرپختونخوا] تحفظ و بہبودِ اطفال کمیشن، سندھ کا محکمہ تحفظِ اطفال، پنجاب تحفظ و بہبودِ اطفال بیورو اور بلوچستان تحفظِ اطفال کمیشن سمیت صوبائی اداروں کو بھی شامل ہونا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا، " اس سے پورے ملک میںکے نظام کو مضبوط کرنےمیں مدد ملنی چاہیئے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ مہم، جو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر صرف اردو میں نشر ہوتی ہے، اسے تمام قومی و علاقائی زبانیں استعمال کرنی چاہیئیں۔"

'ظالم اعداد و شمار'

حقوقِ اطفال کی ایک پاکستانی تنظیم، ساحل، نے "ظالم اعداد و شمار" کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ سنہ 2018 کی پہلی ششماہی میں، پاکستان بھر سےاخبارات میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ کردہ واقعاتکی تعداد 2،322 تھی۔

ساحل کو سنہ 2017 میں 3،445 واقعات کے مقابلے میں، پورے سنہ 2018 کے لیے 3،832 واقعات ملے۔ متاثرین میں سے پچپن فیصد لڑکیاں تھیں۔

قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات جن میں نابالغ ملوث تھے، ملزمان کی اکثریت متاثرین کے جاننے والوں کی تھی۔

تازہ ترین حکومتی کوشش، 16 فروری کو گلگت-بلتستان کی اشکومان وادی میں مظاہرین کی جانب سے 14 سالہ دیدار حسین کے ساتھ زیادتی کرنے اور اسے قتل کرنے والوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کے بعد کی گئی ہے۔

ایک روز قبل، ساتویں جماعت کے طالب علم دیدار حسین کو اغوا کیا گیا، اس کے ساتھ زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش دریا بُرد کر دی گئی۔ مقدمے میں پولیس نے آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا، مگر مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ مرکزی ملزم ابھی بھی مفرور ہے۔

یہ مقدمہ حال ہی میں رپورٹ کردہ کئی مقدمات میں سے ایک ہے جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور انہیں قتل کر دیا تھا۔

فروری سنہ 2018 میں، ایک عدالت نے محمد عمران کو قصور، صوبہ پنجاب میں سات دیگر بچیوں اورزینب فاطمہ امین کے ساتھ زیادتی اور قتلپر سزائے موت دی تھی۔

اسے گزشتہ اکتوبر میں پھانسی دی گئی تھی۔

اعلیٰ سطحی مقدمات سے وسیع طور پر احتجاج شروع ہو گئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور معاشرہ اس عفریت کو روکنے میں بڑا کردار ادا کریں۔

مضبوط تر قوانین

وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ شہریوں کو باخبر رہنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی گھر کے قریب بھی ہو سکتی ہے۔

فروری میں سرکاری مہم کے آغاز کے دوران اسلام آباد میں انہوں نے کہا، "بچوں کے ساتھ گھر میں زیادتی ہو سکتی ہے، اور ایک بچے کو قریبی رشتہ داروں اور ہمسائیوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کسی کو کسی بھی بیہودہ چھیڑ چھاڑ سے کیسے روکنا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو نزدیکی بڑوں کو خبردار کرنا ہے۔

وزارتِ انسانی حقوق نے بچوں کے ساتھ زیادتی سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن -- 1099 -- قائم کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت تحفظِ اطفال کمیشن بھی قائم کر رہی ہے۔

پشاور کے مقامی، حقوقِ اطفال کے ایک کارکن عمران تکھر نے کہا، جبکہ آگاہی مہم ایک نمایاں اقدام ہے، نابالغوں کو زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے "مضبوط تر" اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کے پی میں کے پی تحفظ و بہبودِ اطفال ایکٹ 2010 اور پاکستان میں کسی بھی اور جگہ دیگر قوانین کے تحت بچوں کے تحفظ کے ایک مضبوط تر نظام کی ضرورت ہے۔"

تکھر نے کہا، "تدارک اور جوابی کارروائی کے نظام دونوں ہی بہت اہم ہیں اور صوبوں میں قانون کے تحت قائم کیے جا سکتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے کے بزرگ، مقامی نمائندگان اور امام و خطیب اس بارے میں آگاہی بڑھانے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کہ بچوں کو زیادتی سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔

پشاور میں ایک نجی فرم میں ملازم اور چار بچوں کے والد، عالم زیب خان نے کہا کہ تمام والدین پر لازم ہے کہ آگاہی پھیلانے میں ہاتھ بٹائیں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو زیادہ سخت سزائیں دینے پر مجبور کریں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میں نے اپنے بچوں کو بتایا ہے کہ خاندان میں کسی کی جانب سے، سڑک پر یا کسی بھی اور جگہ کوئی بھی ناخوشگوار چھیڑ چھاڑ کی اجازت مت دیں۔"

انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزارتِ انسانی حقوق کا پیغام اپنے تمام دوستوں تک پہنچایا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو سکھا سکیں کہ کسی ایسے فرد کو کیسے روکنا ہے جو ان کے ساتھ کوئی بیہودگی کر رہا ہے۔

خان نے کہا، "والدین اور اساتذہ لازماً بچوں کو تعلیم دیں، جبکہ حکومت کو چاہیئے کہ آگاہی پیدا کرے نیز مجرموں کے لیے سخت قوانین متعارف کروائے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے یہ مکالہ واقعی پسند آیا

جواب