سیاست

کے پی کی گُڈ گورنس حکمتِ عملی بر وقت خدمات اور شفافیت کی متلاشی

سید عنصر عباس

کے پی کا ایک اہلکار 29 مارچ کو پشاور میں "گڈ گورنس حکمتِ عملی پیش کر رہا ہے۔ ]سید عنصر عباس[

کے پی کا ایک اہلکار 29 مارچ کو پشاور میں "گڈ گورنس حکمتِ عملی پیش کر رہا ہے۔ ]سید عنصر عباس[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کی حکومت نے اپنی نئی "گڈ گورنس حکمتِ عملی" کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد مختلف عوامی سہولیات کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔

حکام کے مطابق، حکومت سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے اور شہریوں کو، جن میں عسکریت پسندی سے متاثرہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں، جلد از جلد ردِعمل فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

حکمتِ عملی جسے کے پی کی پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ (پی ایم آر یو) نے تیار کیا ہے کا آغاز 29 مارچ کو کیا گیا اور یہ پانچ بنیادی ستونوں پر مرکوز ہے: شفافیت اور اوپن حکومت، عوامی سہولیات کی فراہمی، احتساب، شہریوں کی شرکت اورجدید ٹیکنالوجی کا استعمال ۔

اس حکمتِ عملی کے حصہ کے طور پر، حکومت نے کارکردگی کے 41 اعشاریوں کی شناخت کی ہے۔

اس میں حکومتی شعبوں کے لیے یہ بھی ضروری بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے افسران اور ملازمین کے بارے میں معلومات کو عوام کو بتائیں جن میں ان کے اختیارات، افعال، مراعات اور استحقاق بھی شامل ہیں۔

ایسے ڈپارٹمنٹ جو رعایات، اجازت نامے یا لائسنس حاصل کرتے ہیں وہ فعال طور پر ان تفصیلات کو آن لائن بتائیں گے۔

یہ حکمتِ عملی دوسری معلومات کے علاوہ، قوانین و قواعد، معلومات و خدمات، نیلامیوں، ٹھیکوں، حکومتی ایجنسیوں کی زیرِ ملکیت گاڑیوں، حکومتی اثاثوں، ملازمتوں کے مواقع اور سرکاری کالجوں اور تکنیکی اداروں میں داخلوں کی میرٹ لسٹوں کی اشاعت اور اعلانات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی۔

عوام کو جواب دینا

کے پی کے وزیرِ اعلی محمود خان نے 29 مارچ کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "جو اہلکار اچھی کارکردگی دکھائیں گے انہیں انعام دیا جائے گا جبکہ کارکردگی نہ دکھانے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی"۔

کے پی کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسف زئی نے 10 اپریل کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ پروگرام بہت قابلِ قدر ثابت ہو گا اور صوبہ کے شہریوں، خصوصی طور پر قبائلی اضلاع کے رہنے والوں کی مدد کرے گا"۔

یوسف زئی نے کہا کہ "قبائلی عوام تمام فوائد کو حاصل کر سکیں گے۔ انضمام سے پہلے، قبائلی ارکان کو مشکل سے ہی کچھ ملتا تھا، یہاں تک کہ ڈومیسائل اور برتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں"۔

پی ایم آر یو کے ایک کوارڈینیٹر شاہد محمود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ حکمتِ عملی کے پی کی حکومت کو اس قابل بنائے گی کہ وہ صوبے بھر میں جس میں قبائلی علاقے بھی شامل ہیں، کے شہریوں کو سرکاری معلومات تک رسائی فراہم کر سکے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اب گورنمنٹ کے تمام شعبے اپنے اعداد و شمار اور معلومات اپنی ویبسائٹس پر اپ لوڈ کریں گے"۔

شاہد نے کہا کہ "ہم شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے زیادہ جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کروا رہے ہیں۔ ہم نے 200 ایسی وجوہات کی شناخت کی ہے جس کے باعث لوگ سرکاری دفاتر جاتے ہیں"۔

انہوں نے شہریوں کو دفاتر میں وقت ضائع کرنے سے بچانے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ "حکومت نے پہلے ہی ان میں سے 100 وجوہات کے لیے ٹیکنالوجی کو نافذ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ درخواست دہندگان آن لائن درخواست حاصل کر کے اسے جمع کروا سکتے ہیں"۔

شاہد نے کہا کہ "قبائلی اضلاع کے شہری اور دوسرے عسکریت پسندی کے شکار اضلاع کو اس حکمتِ عملی سے فائدہ پہنچے گا"۔

پی ایم آر یو کے ڈپٹی کوارڈینیٹر عادل رضا نے کہا کہ "ہم ان خدمات کا تجزیہ کر رہے ہیں جن کا آن لائن آغاز کیا گیا ہے۔ ہم ان جگہوں کی نشاندہی کریں گے جہاں بہتری کا امکان موجود ہے"۔

رضاء نے کہا کہ "ہم ای گورنس کو سادہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ عوام کی طرف سے ذاتی طور پر سرکاری دفاتر کے لگائے جانے والے چکروں کو کم کیا جا سکے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تمام کام تازہ ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جاتا ہے جسے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ"۔

انہوں نے کہا کہ "ڈیجیٹل طور پر، جہاں ادائیگی کی ضرورت نہیں ہے وہاں کسی بھی قسم کی سافٹ ویئر اپلیکیشن کو استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ ڈیجیٹل ادائیگی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سافٹ ویئر اپلیکیشن متعارف کروائیں گے"۔

ایک ثمر آور منصوبہ

آفتاب احمد جن کی عمر 34 سال ہے اور جو پشاور میں ایک نجی تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں، نے کہا کہ وہ حکومت کی حکمتِ عملی کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ ادارہ بہت ثمرآور ہو گا، خصوصی طور پر نوجوانوں کے لیے جو پبلک سیکٹر میں ملازمت تلاش کر رہے ہیں "۔

احمد نے کہا کہ "میں اپنی ملازمت جاری رکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ ملازمین کو تنخواہ بروقت نہیں ملتی تھی، اس لیے میں نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب دفاتر کے چکر لگانے اور قطاروں میں کھڑے ہونے کی بجائے میں ملازمت کے مواقع کے بارے میں آن لائن جان سکتا ہوں اور ان کے لیے درخواست دے سکتا ہوں"۔

شمالی وزیرستان کے رہائشی اکبر داور جو پشاور میں کام کرتے ہیں، نے قانون و قواعد اور طریقہ کار کے بارے میں معلومات کو آسانی سے آن لائن حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کی تعریف کی"۔

داور نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) کے، کے پی کے ساتھ انضمام سے پہلے، ڈومیسائل اور برتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی تھی اور وقت صرف ہوتا تھا۔ معلومات تک آن لائن رسائی نے ہر کام کو آسان کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "نوآبادیاتی دور کے قوانین نے قبائلی افراد کو سرکاری دفاتر سے دور رکھا ہے۔ کوئی عدالتیں نہیں تھیں اور وہ دستاویزات کے لیے ادائیگی کرتے تھے"۔

داور نے کہا کہ "اب نظام بدل گیا ہے اور قبائلی پٹی میں کوئی بھی سرکاری اہلکار تعاون کرنے سے انکار نہیں کر سکتا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500