دہشتگردی

شام کے الہول کیمپ میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ خاتمے سے بہت دور ہے

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

الہول کیمپ، جس میں داعش کے ارکان کے رشتہ داروں کو ٹھہرایا گیا ہے، میں مقیم غیر ملکی خواتین 28 مارچ کو الحساکہ گورنریٹ، شام میں کیمپ کے اندر شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے ایک رکن کی نگرانی میں چہل قدمی کر رہی ہیں۔ [دلیل سلیمان/اے ایف پی]

الہول کیمپ، جس میں داعش کے ارکان کے رشتہ داروں کو ٹھہرایا گیا ہے، میں مقیم غیر ملکی خواتین 28 مارچ کو الحساکہ گورنریٹ، شام میں کیمپ کے اندر شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے ایک رکن کی نگرانی میں چہل قدمی کر رہی ہیں۔ [دلیل سلیمان/اے ایف پی]

الہول، شام -- مشرقی شام میں ایک کیمپ کے اندر محافظوں کے ساتھ لڑائیاں، پرتشدد گروہی جھگڑے اور حد سے زیادہ انتہاپسندی کا نیا ڈھنگ ظاہر کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کی نام نہاد خلافت شکست سے دوچار ہو چکی ہو، مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ خاتمے سے ابھی بہت دور ہے۔

کردوں کی سربراہی میں زمینی افواج اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں کی وجہ سے اپنے آخری باقی ماندہ علاقے سےدہشت گردوں کے نکلنےکے بعد حالیہ مہینوں میں الہول کیمپ کے جنوب میں شامی دیہات سے داعش کے جنگجوؤں کی ہزاروں بیویاں اور بچے سیلاب کی صورت کیمپ میں پہنچے ہیں۔

ان کے علاقے کا آخری ٹکڑہ، بغوز، 23 مارچ کو چھین لیا گیا تھا۔

شامیوں اور عراقیوں کے ہجوم میں، کوئی 9،000 غیر ملکیوں کو کیمپ کے ایک باڑ والے حصے میں، کرد فوج کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔

جب وہ امدادی راشن وصول کرنے کے لیے کیمپ کی مارکیٹ میں جانا چاہتے ہیں، تو زیادہ خطرناک قیدیوں کو مسلح محافظوں کی نگرانی میں لے جایا جاتا ہے۔

مگر کھچاؤ بڑھ گیا ہےخود غیر ملکیوں کے درمیان بھی۔

وینیزہ، جو سنہ 2013 میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بطور نو مسلم اپنے آبائی وطن گیانا سے شام آئی تھی، نے کہا، "ہماری ذہنیت ایک جیسی نہی ہے --- وہ [انتہاپسند] اپنی پسند کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔"

36 سالہ نحیف و نزار خاتون نے کیمپ کے تیونس کے باشندوں کی طرف خصوصاً "انتہاپسند" کے طور پر اشارہ کرتے ہوئے کہا، "وہ کہتے ہیں کہ ہم کافر ہیں۔"

'یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں'

داعش کی نام نہاد "خلافت کے تحت -- جس کا اعلان شام اور ہمسایہ ملک عرق کے چند بڑے علاقوں پر 2014 میں کیا گیا تھا -- نابالغوں کی دانستہ طور پر برین واشنگ کی گئی تھی اور حتیٰ کہ ان کے سامنے سرِ عام پھانسیاں دی گئی تھیں۔

داعش کے ساتھ متواتر وفاداری کے اظہار میں، کیمپ میں چند بچوں -- کچھ واضح طور پر مسکرا رہے تھے، دیگر سردمہری سے گھور رہے تھے -- نے اے ایف پی کے رپورٹروں کے سامنے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔

ایک عورت نے کیمرہ مین کو مارنے کی دھمکی دی، لیکن دیگر -- جو گھر واپس جانے اور داعش میں شمولیت پر پچھتاوے کا اظہار کرنے کے لیے متفکر تھیں -- بات کرنے کو بیتاب تھیں۔

بیلجیئم کی ایک خاتون جو 2013 میں شام آئی تھی، نے تصدیق کی کہ الہول کیمپ میں رکھی گئے کچھ تیونیسیوں اور روسیوں نے "بہت انتہاپسندانہ عقائد" اختیار کر لیے ہیں۔

اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں۔"

اس نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ "محافظوں سے بات کرنا، یا مارکیٹ جانے کی درخواست کرنا، ہمیں ان کی نظروں میں کافر بنا سکتا ہے۔"

بیلجیئم کی خاتون نے کہا کہ جب ایک بار کسی پر کافر کا لیبل لگ جاتا ہے، یہ خواتین اس فرد کی ملکیتی اشیاء کو چھین لینا قانونی حکم سمجھتی ہیں۔

"وہ ہمارے خیمے جلا سکتی ہیں اور ہمارے ساتھ جو کرنا چاہیں کر سکتی ہیں۔"

مگر تناؤ صرف غیر ملکیوں کے حصے تک محدود نہیں ہیں۔

ایک ہفتہ پہلے، مرکزی علاقے، جہاں عراقیوں اور شامیوں کی اکثریت ہے، میں لڑائی طول اختیار کر گئی تھی۔ کرد پولیس کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔

اپنا نام بتائے بغیر، ایک پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ مکینوں نے اپنے ساتھی مکینوں پر "پتھر پھینکے" تھے۔

کیمپ کے شعبۂ مواصلات کے سربراہ نبیل الحسن نے اصرار کیا، "امن و امان کی صورتحال قابو میں ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، ہنوز، بڑی انتظامی مشکلات "مسائل" کو بڑھا رہی ہیں بشمول خیموں اور امداد تک رسائی کے معاملے میں تناؤ۔

داعش کے مقصد سے وفادار

وضع حمل کے بالکل قریب، 21 سالہ لامیہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ داعش کے مقصد کے ساتھ اپنی وفاداری میں پُرعزم ہے۔

منبیج، ایک شامی شہر جس پر عسکریت پسندوں نے قبضہ کر لیا تھا اور کردوں کی سربراہی میں شامی جمہوری فورسز نے یہ قبضہ ختم کروایا تھا، کی سابقہ مکین نے کہا، "ہم ابھی بھی [داعش] کے ساتھ ہیں۔"

لامیہ اپنے آبائی شہر واپس جانا چاہتی ہے اور وہ ایک ماہ سے کیمپ میں ہے۔ اس کا پہلا خاوند جنگ میں مارا گیا تھا، اور دوسرا جیل میں ہے۔

غیر ملکیوں کے علاقے کے داخلی راستے پر، کئی خواتین بشمول الجیریا اور یوکرائن کی خواتین گیٹ پر جمع تھیں، وہ مُصر تھیں کہ اب مارکیٹ جانے کی باری ان کی ہے۔

بھورے بالوں والے اور وسطی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے بچے مٹی سے لتھڑے ہوئے تھے۔

خواتین انڈوں، آلوؤں، ڈائپرز اور گیس سلنڈروں سے لدی ہوئی ٹرالیوں کو کھینچتی ہوئی مارکیٹ سے واپس آئی تھیں۔

پہرے داروں کی جانب سے ہر چیز کی باریک بینی سے تلاشی لی جاتی ہے، جنہیں حکم ہے کہ غیر معمولی طور پر قیمتی اشیاء اور موبائل فونز کو قبضے میں لے لیں، انہیں روزنامچے میں درج کریں اور ذخیرہ کر لیں۔

حسن نے کہا کہ یہ حفاظتی اقدامات مکینوں کو ایک دوسرے کی چوری کرنے اور اشیاء کی سمگلنگ کرنے یا بیرونی دنیا سے روابط بنانے کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔

'مستقبل کے دہشت گرد'

نیم خودمختار کرد انتظامیہ جس کی شمال مشرقی شام کے کافی زیادہ حصے پر حکمرانی ہے ان لوگوں کے آبائی ممالک سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لے جائیں۔

کرد اہلکار عبدالکرم عمر نے کہا کہ خواتین اور بچوں کو "دوبارہ تعلیم دینے اور اپنے آبائی ممالک میں دوبارہ ضم کرنے" کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ بصورتِ دیگر، وہ "مستقبل کے دہشت گرد" بن جائیں گے۔

امریکہ نے بھی ان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کیمپوں میں رکھی گئی خواتین اور بچوں کو واپس لے جائیں۔

شام میں امریکی نمائندہ خصوصی، جیمز جیفری نے 25 مارچ کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا، "ترجیح یہ ہے کہ ممالک پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لے لیں جنہوں نے جرائم کیا ارتکاب کیا بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔"

انہوں نے کہا، "اگر وہ اس پر کچھ محنت کریں، تو وہ اس سے نمٹ سکتے ہیں۔"

تاہم، غیر ملکی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کی تقدیر حکومتوں کے لیے ایک نمایاں مسئلہ بن گئی ہے کیونکہ داعش کے خلاف جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے، جس میں چند حکومتوں کو خوف ہے کہ ہو سکتا ہے ان کے پاس داعش کے ان ارکان پر مقدمات چلانے کے لیے کافی ثبوت نہ ہو جن کا دعویٰ ہے کہ وہ لڑائی میں شریک نہیں تھے۔

فرانسیسی وزیرِ داخلہ کرسٹوفر کیسنر نے جمعہ (5 اپریل) کو کہا کہ فرانس نے داعش کی شکست کے بعد شام میں قید فرانسیسی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "کوئی بھی اجتماعی واپسی زیرِ غور نہیں ہے،" انہوں نے زور دیا کہ تاہم فرانس داعش کے جنگجوؤں کے بچوں کو "انفرادی صورتحال کی بنیاد" پر واپس لانے کا مطالعہ کریں گے۔

پچھلے ماہ، فرانسیسی حکام پہلی بار شمال مشرقی شام کے کیمپوں سے فرانسیسی جنگجوؤں کے پانچ یتیم بچوں کو ملک میں واپس لائے تھے۔

دریں اثناء، آسٹریلوی وزیرِ اعظم سکاٹ موریسن نے جمعہ کے روز کہا کہ وہ مدد کے لیے ایک شدید التجاء کے بعد شام کے پناہ گزین کیمپ میں ایک آسٹریلوی عسکریت پسند کے یتیم بچوں کو واپس لانے کی اجازت دے رہے ہیں۔

موریسن نے کہا کہ ان کی حکومت ہلالِ احمر کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ بچے شمال مشرقی شام میں الہول کیمپ سے نکل سکیں اور آسٹریلوی حکام کی ان تک رسائی ہو سکے۔

اختلافات سے قطع نظر، اتحادیوں کا ہدف ایک ہی ہے: داعش کے جنگجوں کواپنے جرائم کا خمیازہ بھگتتےدیکھنا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500