مذہب

داعش کی جانب سے نوٹر ڈیم کلیسا میں آتش زدگی کا تمسخر، اسے 'انتقام' قرار دے دیا

سلام ٹائمز

سوشل میڈیا پر جاری داعش کا ایک پوسٹر جس پر 15 اپریل کو پیرس میں نوٹر ڈیم کلیسا میں آتش زدگی کی تصویر کے سامنے "انتقام" لکھا ہوا ہے۔ [فائل]

سوشل میڈیا پر جاری داعش کا ایک پوسٹر جس پر 15 اپریل کو پیرس میں نوٹر ڈیم کلیسا میں آتش زدگی کی تصویر کے سامنے "انتقام" لکھا ہوا ہے۔ [فائل]

جبکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ انسانیت کے محبوب ترین تاریخی آثارِ قدیمہ میں سے ایک، پیرس میں نوٹر ڈیم کے کلیسا میں بڑے پیمانے پر تباہی پر غمزدہ ہیں، "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) آتش زدگی کے اس واقعہ پر جشن منا رہی ہے۔

سوموار (15 اپریل) کے روز اس ہیبت ناک کی آگ کو بجھانے میں تقریباً 15 گھنٹے لگے۔

کلیسا کی زیادہ تر چھت تباہ ہو گئی، مینار ڈھے گیا اور نامعلوم تعداد میں فن پارے اور تصاویر گم ہو گئیں۔ ہنوز، دیواریں، گھنٹی والے کھمبے اور مشہور ترین گول رنگدار شیشے والی کھڑکیاں محفوظ رہیں۔

داعش کی جانب سے استہزاء

جب پیرس میں آگ لگی ہوئی تھی، تو داعش کے ساتھ الحاق شدہ ایک گروہ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹر جاری کیا جس میں کلیسا میں لگی آگ کو عربی کے لفظ "انتقام" سے تعبیر کیا۔

15 اپریل کو پیرس میں نوٹر ڈیم کلیسا کی چھت سے شعلے اور دھواں نکلتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ [فیبیئن باراؤ/اے ایف پی]

15 اپریل کو پیرس میں نوٹر ڈیم کلیسا کی چھت سے شعلے اور دھواں نکلتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ [فیبیئن باراؤ/اے ایف پی]

مذاق اڑاتے ہوئے، اس میں فرانسیسی زبان میں یہ بھی کہا گیا "آپ کا دن اچھا رہے" اور "اس کی تعمیر 1163 میں شروع ہوئی اور 1345 میں مکمل ہوئی تھی۔ اب تمہاری مشرکانہ سخن آرائی کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا ہے۔"

یہ بیان داعش کی جانب سے ثقافتی ورثے کے لیے بدلحاظی اوراس کی اسلام کی خودساختہ تشریحکی تازہ ترین علامت ہے۔

ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں، داعش کی پیشرو، القاعدہ سنہ 2006 میں سمارا، عراق میں شیعہ العسکری مسجد، جو سنہری مسجد کے نام سے بھی معروف تھی، میں ہونے والے بم دھماکے کی ملزم تھی۔

موصل، عراق پر اپنے خونریز قبضے کے دوران، داعش نے سنہ 2015 میں ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں اس کے جنگجو موصل کے عجائب گھر پر ہتھوڑوں اور ہوائی ڈرلوں کے ساتھ حملہ آور تھے، اور قبل از اسلام کے بیش قیمت فن پاروں کو تباہ کر رہے تھے جنہیں یہ اپنے دین کی بے حرمتی تصور کرتے تھے۔

داعش نے نمرود کے آشوری شہر، قدیم شہر ہاترا، اور صدیوں پرانے صحرائی شہر پامیرا، شام کو بھی اڑا دیا تھا۔

داعش کی نام نہاد "خلافت" گزشتہ ماہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی، جس کے بعد اس تنظیم کے پاس ایسا کوئی علاقہ نہیں بچا جس پر اس کا عراق اور شام میں برسوں تک تباہی پھیلانے کے بعد دعویٰ ہو۔

اختلافات پیدا کرنے کی ایک کوشش

دنیا بھر کے مذہبی محققین نے داعش کے بیان کی مذمت کی ہے۔

پاکستان کے ایک عالمِ دین، محمد ثاقب رحمان نے کہا کہ اسلام دیگر مذاہب کا انتہائی احترام کرتا ہے۔

پشاور کے ایک امام، رحمان نے کہا، "داعش اسلام کی نمائندہ نہیں ہے؛ یہ دہشت گردوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کی نمائندگی کرتی ہے، اور اس لیے عیسائیوں کو اس کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا، "اس واقعہ پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو افسوس ہے، اور ہمیں بھی فرانس میں لگنے والی آگ کا اتنا ہی دکھ ہے۔"

رحمان نے کہا، "کچھ چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔"

رحمان نے کہا کہ اسلام امن اور بھائی چارے کی حمایت کرتا ہے اور دنیا بھر میں اختیار کردہ مختلف مذاہب کا احترام کرتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی سچا مسلمان آگ لگنے پر خوشی کا اظہار نہیں کرے گا۔

داعش کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے، یونیورسٹی آف پشاور میں اسلامیات کے ایک لیکچرار محمد رفیق نے کہا کہ مسلمان تمام عبادت گاہوں کا انتہائی ادب کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "عیسائیوں، ہندوؤں وغیرہ کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا مسلمانوں کی ایسے ہی ذمہ داری ہے جیسے وہ ہمارے مذہب کا حصہ ہوں۔ داعش اسلام کے نام پر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے، جو کہ بالکل غلط ہے۔"

رفیق نے کہا داعش اسلام کو نفرت کا دین بنا کر پیش کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ یہ امن اور رواداری کا دین ہے۔

انہوں نے کہا، "قرآن کی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھائی چارے کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500