جرم و انصاف

کے پی قبائلی اضلاع کو انضمام کے جزو کے طور پر نئی عدالتیں، محکمۂ پولیس مل گیا

از جاوید خان

1 مارچ کو پشاور پولیس کے افسران کارخانو مارکیٹ میں ضلع خیبر کے ساتھ سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

1 مارچ کو پشاور پولیس کے افسران کارخانو مارکیٹ میں ضلع خیبر کے ساتھ سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) کے قبائلی اضلاع میں عدالتیں قائم ہو گئی ہیں اور فعال ہیں جبکہ مقامی حکامخطے میں سول پولیسنگ کو وسیع کر رہے ہیں۔

کے پی حکومت کے ترجمان اور وزیرِ اعلیٰ کے پی کے مشیر برائے ضم کردہ اضلاع، اجمل خان وزیر، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "11 مارچ کو باقاعدہ عدالتوں کے کام شروع کر دینے اور عوام کو انصاف پانے کے لیے ایک فورم ملنے کے بعد بہت سے قبائلی ارکان کا ایک خواب پورا ہو گیا ہے۔"

یہ اقدام سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا)،جنہیں سنہ 2018 میں کے پی میں ضم کیا گیا تھا، کو مرکزی دھارے میں لانے کا ایک جزو ہے۔ آج تک فاٹا میں کوئی عدالتی نظام موجود نہیں تھا۔

قبائلی عوام ایک انتہائی ظالمانہ، الگ قانونی نظام، نو آبادیاتی زمانے کےفرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر)کے تابع تھے، جسے اس انضمام میں ختم کر دیا گیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی کے معاونِ خصوصی اور صوبائی کابینہ کے رکن، کامران بنگش نے 13 مارچ کو کابینہ کے اجلاس کے بعد پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عدالتوں تک رسائی کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے، اور پولیس افسران کا پہلا پُور ضم کردہ اضلاع میں منتقل ہونے کے لیے تیار ہے۔"

بنگش نے کہا، "وزیرِ اعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ انضمام کے عمل کو تیز کیا جائے، اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع کے مسائل کابینہ کے تمام اجلاسوں میں اولین ترجیح ہوں گے، جو کہ ہر 15 یوم بعد ہوا کریں گے۔"

جاری مقدمات

کابینہ نے 13 مارچ کے اجلاس کے دوران ان مقدمات پر بات چیت کرنے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی ہے جو ماضی میں ایف سی آر کے تحت درج ہوئے تھے۔

کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر اپنے اپنے اضلاع میں عدالتوں کے مستقل مقامات کا انتظام کریں گے، کیونکہ ملحقہ اضلاع میں قائم عارضی عدالتیں صرف مزید دو ماہ کے لیے کام کرنا جاری رکھیں گی۔

28 کی تعداد تک عدالتی افسران -- بشمول سات ضلعی اور سیشن ججوں -- اور 14 سول ججوں نے نئے ضم کردہ اضلاع میں اپنے عہدے سنبھال لیے ہیں۔ شاہد خان کو خیبر میں ضلعی و سیشن جج تعینات کیا گیا تھا، اصغر شاہ کو اورکزئی میں، اسد حمید کو مہمند میں، نصراللہ خان کو باجوڑ میں، صلاح الدین خان کو کرم میں، کریم ارشاد کو جنوبی وزیرستان میں اور ممرازی خان کو شمالی وزیرستان میں تعینات کیا گیا تھا۔

2 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ نے اضلاع میں تعینات ہونے والے عدالتی افسران کے لیے ایک تعارفی نشست کا اہتمام کیا تھا۔

سینیئر سول جج ظفراللہ خان نے 11 مارچ کو ضلع خیبر میں نئی عدالتوں کے پہلے مقدمے کی سماعت کی۔ مقدمہ ایک طالب علم کے ایک یونیورسٹی میں داخلے سے متعلق تھا۔

نئے تھانوں کی منظوری

کے پی حکومت نے 8 مارچ کو ضم کردہ اضلاع میں 25 تھانوں کے قیام کی بھی منظوری دی، جن میں سے ابتدائی طور پر ہر سب ڈویژن میں کم از کم ایک تھانہ قائم کیا جائے گا۔

کے پی پولیس کے ترجمان، کوکب فاروق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پولیس کی جانب سے ایک سمری بھیجے جانے اور وزارتِ داخلہ سے منظور ہو جانے کے بعد حکومت نے ضم کردہ اضلاع میں 25 تھانے قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔"

فاروق کے مطابق، خیبر، مہمند، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں سے ہر ایک ضلع میں تین تھانے ہوں گے۔ باجوڑ اور اورکزئی میں سے ہر ایک میں دو تھانے ہوں گے۔ درہ زندا، جندولہ، حسن خیل، درہ آدم خیل، وزیر اور بھٹانی کے سابقہ فرنٹیئر ریجنز میں ایک ایک تھانے کی منظوری دی گئی ہے۔

کے پی حکومت نے قبائلی علاقہ جات میں 13 حوالاتوں کو کے پی محمکمۂ جیل خانہ جات کے تحت ذیلی جیلیں قرار دیا ہے اور ان مقامات پر 152 اہلکاروں کو تعینات کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔

مارچ کے اوائل میں کے پی حکومت نے کہا تھا کہ جنوبی وزیرستان پولیس کے ڈیرہ اسماعیل خان ریجن کا حصہ ہو گا، شمالی وزیرستان بنوں رینج کے ساتھ، کرم اور اورکزئی کوہاٹ رینج میں، خیبر پشاور رینج میں، مہمند مردان رینج میں اور باجوڑ مالاکنڈ رینج میں ہوں گے۔

انتظامی تشکیل علاقائی پولیس افسران کو ان اضلاع میں پولیس کی باضابطہ نگرانی شروع کرنے کے قابل بناتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

نوانضمام شدہ علاقوں کا انتظام کس قانون یا ضابطہ کے تحت ہو گا.

جواب

یہ سراسر ظلم ہیں بلکہ قبائلوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہمیں یہ انضمام بالکل نا منظور ہیں.

جواب

ہاں

جواب