معیشت

خیبرپاس معاشی راہداری بہتر پاک- افغان تجارت کے لیے راہ ہموار کرے گی

عدیل سعید

گزشتہ نومبر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم سرحدی پھاٹک دکھایا گیا ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو بڑھانے اور علاقائی انضمام کے لیے ایک چار رویہ خیبر پاس معاشی راہداری کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ [عدیل سعید]

گزشتہ نومبر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم سرحدی پھاٹک دکھایا گیا ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو بڑھانے اور علاقائی انضمام کے لیے ایک چار رویہ خیبر پاس معاشی راہداری کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ [عدیل سعید]

پشاور – توقع ہے کہ پشاور سے طورخم کی سرحدی چوکی تک منصوبہ شدہ ایک چار رویہ ایکسپریس وے کئی برسوں کی عسکریت پسندی اور دہشتگردی سے مسدود پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں بہتری لائے گی۔

خیبر پاس معاشی راہداری (کے پی ای سی) پراجیکٹ، جس کی 482 ملین ڈالر (67.1 بلین روپے) لاگت میں سے بیشتر عالمی بینک کی جانب سے قرض ہو گی، منصوبہ بندی کے حتمی مراحل میں ہے اور اس کی طوالت 48 کلومیٹر ہو گی۔

عالمی بینک کی ویب سائیٹ کے مطابق، اس منصوبے کی تاریخِ اختتام 28 جون 2024 ہے۔

21 جنوری کو عالمی بینک میں نجی شعبہ کی ایک اعلیٰ ماہر ادجا منصورہ نے پشاور میں سرحد ایوانِ صنعت و تجارت (ایس سی سی آئی) کے اپنے دورے کے دوران کاروباری قائدین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکسپریس وے "پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیائی جمہوریتوں میں تجارت کو فائدہ پہنچائے گی۔"

مارچ 2017 میں لی گئی ایک فائل فوٹو میں طورخم سرحدی پھاٹک کے راستے پاکستان سے افغانستان سامان لے جانے والے ٹرک دکھائے گئے ہیں۔ [عدیل سعید]

مارچ 2017 میں لی گئی ایک فائل فوٹو میں طورخم سرحدی پھاٹک کے راستے پاکستان سے افغانستان سامان لے جانے والے ٹرک دکھائے گئے ہیں۔ [عدیل سعید]

منصورہ نے کہا کہ کے پی ای سی کا مقصد علاقائی رابطہ کو بہتر بنا کر اور نجی شعبہ کی ترقی کو فروغ دے کر پاکستان اور افغانستان کے درمیانمعاشی سرگرمی کو وسعت دیناہے۔

تجارت پر دہشتگردی کا اثر

انہوں نے مزید کہا کہ اس پراجیکٹ کے دو اجزاء ہیں جن میں چار رویہ ایکسپریس وے کی تعمیر اور معاشی زونز، ایک کمرشل ایریا ایک ٹرک ٹرمینل اور گودام کی ایک تنصیب کی تعمیر کے ذریعہ علاقہ کی ترقی شامل ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی کاروباری برادری اس منصوبہ شدہ پراجیکٹ کی اس امید میں ستائش کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کم ہوتی تجارت قوتِ رفتار پکڑ لے گی اور یہ کہ اس خطے میں معاشی استحکام کا ایک نیا دور نمودار ہو گا جوعسکریت پسندی اور دہشتگردی کی کئی دہائیاں طویل لہرسے لڑکھڑا رہا ہے۔

ایس سی سی آئی کے صدر فیض احمد فیضی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "خطے کی معیشت پر اس پراجیکٹ کے دور رس اثرات ہوں گے کیوں کہ اس میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارتی تعلقات بہتر بنانے کی بلکہ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے مابین تاریخی تجارتی روابط کی تجدید کرنے کی بھی صلاحیت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ کے پی اور سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات پر مشتمل پاکستان کے مغربی حصوں کی معیشت کا انحصار افغانستان اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارت پر ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سڑک کا یہ منصوبہ پاک افغان تجارت میں ایک نئی روح پھونک دے گا۔

فیضی نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت 2.5 بلین ڈالر سے کم ہو کر 1 بلین ڈالر سے کم رہ گئی ہے۔

کے پی کے وزیرِ مالیات تیمور سلیم جھگڑا نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "خیبر پختونخوا کی معیشت کو بڑھوتری دینے کے لیے ہمیں افغانستان اور وسط ایشیائی جمہوریتوں کے ساتھ تجارتی روابط بہتر بنانے ہیں۔"

’دور رس اثرات‘

تیمور نے کہا کہ کے پی کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان اس تجارتی رابطہ کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں اور انہوں نےطور خم پر پاک افغان سرحدی پھاٹک کی دن رات فعالیت کی ہدایات جاری کی ہیں۔

جھگڑا نے کہا کہ کے پی ای سی کی منصوبہ بندی کا مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور حتمی منظوری کے لیے وزیرِ اعلیٰ کو ارسال کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا، "جیسا کہ ہم کے پی ای سی کی جغرافیائی- معاشی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش اس منصوبے کی جلد منظوری پر مرکوز ہیں کیوں کہ دوشنبے، تاجکستان کے ساتھ تجارتی روابط وسیع کرنے کے ساتھ ساتھپاک افغان تجارت پر بھی دور رس اثرہو گا۔"

افغانستان کو چینی اور سیمنٹ کے ایک پشاور سے تعلق رکھنے والے برآمد کنندہ شاہد حسین نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ خطے میں کاروبار اور تعلقات کو بہتر کرنے میں نہایت اہم ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایسے منصوبے خطے میں ترقی اور پیشرفت لا کر اندازِ زندگی بدل دیتے ہیں۔" شاہد نے کہا کہ کے پی ای سی نہ صرف پاک افغان تعلقات میں بہتری لائے گا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین کاروبار کو بھی تحریک دے گا، جس سے سرحد کی دونوں جانب فائدہ ہو گا۔

ایک افغان کاروباری اور جلال آباد، افغانستان میں انجمنِ تاجران کے صدر حاجی زلمئے نے شاہد کی پرامّیدی کو آگے پہنچایا۔

زلمئے نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے سے یقیناً افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے آپس میں تعلقات پر اچھا اثر پڑے گا اور عوامی تعلقات میں بہتری آئے گی۔" وہ تہِ دل سے اس نئے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امّید ظاہر کرتے ہیں کہ اس سے پاک افغان تجارت بحال ہو گی اور دونوں ممالک کے مابین ابلاغ میں بہتری آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی صلاحیت کے ہوتے ہوئے، پاکستان، افغانستان اور وسط ایشائی جمہوریتوں کے مابین صدیوں پرانے روابط کی بحالی سے خطے میں ہر کسی کو فائدہ ہو گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاک افغان سرحد کب تک بند رہے گی؟

جواب

خوب

جواب

معاشیات

جواب