ماحول

کے پی مقامی مچھلی کو بچانے میں مصروفِ عمل جبکہ حد سے زیادہ ماہی گیری، آلودگی نقصان پہنچا رہی ہیں

از سید عنصر عباس

22 فروری کو ایک مچھیرا خیبر پختونخوا میں کام کرتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

22 فروری کو ایک مچھیرا خیبر پختونخوا میں کام کرتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) اس مچھلی کو بچانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے جس کی تعداد دریائے سندھ، سوات اور کابل میں غیر قانونی ماہی گیری کے طریقوں، حد سے زیادہ ماہی گیری اور آلودگی کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔

مقامی دریاؤں میں مچھلی کی آبادیوں میں کمی پر قابو پانے میں مدد کے لیے، کے پی حکومت اور پشاور کی مقامی حکومت افزائشِ نسل کو بڑھانے نیز غیر قانونی ماہی گیری اور حد سے زیادہ ماہی گیری کو روکنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

غذائی تحفظ کو بڑھانے کی کوششیں اور بھوک سے جنگ کے پی میں اہمیت کے حامل ہیں، ایسا صوبہ جو المناک طور پر عسکریت پسندی کی کشش سے مایوسی کی حد تک واقف ہے۔ سوات، کے پی -- نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا آبائی ضلع، جو سنہ 2012 میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے قاتلہ حملے میں بشمکل بچی تھی -- میں سنہ 2007-2009 میں ٹی ٹی پی کے زمانۂ جبر کے دوران ٹراؤٹ کے زیادہ تر فارم تجارت چھوڑ گئے تھے، جیسا کہ گزشتہ برس ڈان نے خبر دی تھی۔

اب برسوں کے فوجی حملوں سے دہشت گردوں کے زیادہ تر ثانوی حیثیت اختیار کرنے کے ساتھ، سوات کے مچھلی فارم واپس آ گئے ہیں، اور کے پی حکام جنگلی مچھلی کو سمندری غذا کے شوقین افراد کو دستیاب رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

22 فروری کو پشاور میں ایک شخص مچھلی فروخت کرتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

22 فروری کو پشاور میں ایک شخص مچھلی فروخت کرتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

22 فروری کو پشاور میں سڑک کنارے ایک دکاندار مچھلی تلتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

22 فروری کو پشاور میں سڑک کنارے ایک دکاندار مچھلی تلتے ہوئے۔ [سید عنصر عباس]

ماہی گیری پر موسمِ گرما میں پابندی کا اطلاق

کے پی محکمۂ ماہی پروری کے معاون ڈائریکٹر فواد خلیل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "غیر قانونی ماہی گیری اور حد سے زیادہ ماہی گیری کو روکنے کے لیے، حکومت نے صوبے میں اپریل میں مچھلی کی افزائشِ نسل کے موسم کے فوری بعد، جون سے اگست تک مچھلی پکڑنے پر پابندی لگا دی ہے۔"

خلیل نے کہا، "یہ غیر قانونی سرگرمیاں خصوصی طور پر بنائے گئے بہت بڑے جالوں، ڈائنامائٹ اور کیمیائی مادے، جو انڈوں کو تباہ کرتے ہیں، استعمال کرتے ہوئے مچھلی کی آبادی کو مزید نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ایسے افراد کو جرمانے کیے ہیں۔ جرمانہ 50 روپے (تقریباً 4 امریکی سینٹ) فی مچھلی ہے، اور اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے، تو چھ ماہ جیل کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"

خلیل نے کہا کہ پانی کی آلودگی بھی مچھلی کی آبادی کو کم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی باشندے بہت بڑی مقدار میں کوڑا کرکٹ دریاؤں میں پھینک رہے ہیں، اور "کچھ مقامی باشندوں نے اپنے گندے پانی کی نکاسی کی نالیوں کا رُخ سیدھا دریاؤں میں ڈالنے کے لیے موڑ دیا ہے، جس سے آلودگی ہو رہی ہے جو مچھلی کی افزائشِ نسل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔"

خلیل نے کہا کہ ضلع چارسدہ میں تقریباً 150 سنگِ مرمر کی فیکٹریاں دریائے کابل کے کناروں پر لگی ہوئی ہیں، جن میں سے چند ایک پانی کی آلودگی میں حصہ ڈال رہی ہیں۔

اقدامات کرنا

خلیل کے مطابق، پشاور کی مقامی ضلعی حکومت نے صوبائی محکمۂ ماہی پروری کو 2.3 ملین روپے (16،000 ڈالر) جاری کیے ہیں تاکہ ذخائر کو لبالب بھرنے کے لیے مچھلی کے بچوں کو دریائے کابل میں چھوڑنے کے لیے ادائیگی کرے۔

خلیل نے کہا، "پشاور کی مقامی حکومت کے ضلعی ناظم، محمد عاصم خان، نے اس بارے میں محکمۂ ماہی پروری کو ہر ممکنہ مدد کی پیشکش کی ہے۔"

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پشاور کی مقامی حکومت مچھلی کے 10 ملین بچوں کو دریائے کابل، شاہ عالم اور نغمان میں چھوڑنے کے لیے فنڈز جاری کرے گی۔

خان نے کہا، "ہم نے پہلے ہی احکامات جاری کر دیئے ہیں کہ یہ فنڈز محکمۂ ماہی پروری کو دیئے جائیں اور اسے مچھلی کو چھوڑنے کے لیے آئندہ مئی، جون، جولائی اور اگست کے مہینوں کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کی ہدایات دی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پشاور کی مقامی حکومت نے مچھلی کو جھٹکا دینے کے لیے برقی کرنٹ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے، انہوں نے مزید کہا، "ہم پشاور میں مچھلی فارموں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔"

محکمۂ تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کے کے پی دفتر میں ڈائریکٹر ثناء اللہ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ملک کا محکمۂ تحفظ ماحولیاتپانی کی گزرگاہوں میں صنعتی آلودگی کی نگرانی کرنے اور اسے روکنےاور یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ صنعتی کمپنیاں ماحولیاتی قوانین کی پابندی کریں۔

خان نے کہا کہ ای پی اے دریاؤں کے کنارے بنے کاروباری اداروں کے کثرت سے دورے کرتا ہے اور اگر انہیں ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے پاتا ہے تو انہیں تنبیہی نوٹسز جاری کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، "ای پی اے کے احکامات کو ماننے میں ناکامی تحفظ کے قانون 2014 کے تحت ایک جرم ہے۔"

انہوں نے کہا، "ماحولیاتی تحفظ کے ٹربیونل کا جرمانہ 5 ملین روپے [36،000 ڈالر] ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ سنہ 2018 میں ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں پر "پورے صوبے میں 1،600 سے زائد خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے کیے گئے۔"

موسمیاتی تبدیلی کی ایک علامت

تازہ پانی کی شیر ماہی، جو ٹائیگر فش کے طور پر بھی مشہور ہے، علاقے کی سوغات تصور کی جاتی ہے اور ہمیشہ سے اس کی بہت زیادہ طلب رہی ہے۔

ماہی پروری کے ایک ماہر اور یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ حیوانیات کے اسسٹنٹ پروفیسر، ضیغم حسن کے مطابق، دیگر عوامل کے علاوہ، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دریائے کابل کے درجۂ حرارت میں اضافے نے پانی میں آکسیجن کی سطحات کو کم کر دیا ہے، جس سے شیر ماہی کی آبادی کو نقصان پہنچا ہے۔

حسن نے کہا کہ شیر ماہی ایک حساس مچھلی ہے اور اسے زندہ رہنے کے لیے دیگر مچھلیوں کی نسبت زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدر میں دریائے کابل کے کناروں پر واقع سنگِ مرمر کی کانوں کی جانب سے فضلے کی تلفی سے منسلک آلودگی بھی دریا میں آکسیجن کی سطحات کو کم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیر ماہی کو اس کی انتہائی حساس فطرت کی وجہ سے جوہڑوں یا مچھلی فارموں میں نہیں پالا جا سکتا۔ اسے ہیچریوں میں پالنے کی کوششیں ابھی تک ناکام رہی ہیں۔

شیر ماہی کی آبادی میں کمی نے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب منڈی میں اس کی قیمت 1،000 روپے (7.15 ڈالر) فی کلو گرام ہے۔ اس کے برعکس، ماہسیر اور سلور فش کی قیمت بالترتیب 300 روپے اور 250 روپے (2.15 ڈالر اور 1.79 ڈالر) فی کلو گرام ہے۔

ضلع چارسدہ کے ماہی گیر عبدالحلیم نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مقامی شیر ماہی کے پی میں "پسندیدہ ترین مچھلیوں میں سے ایک" ہے۔

انہوں نے کہا، "مچھلی کے شوقینون کی اولین ترجیح شیر ماہی ہے۔"

سردریاب میں مچھلی کے ایک کھوکے کے مالک خان گل نے اتفاق کیا کہ شیر ماہی اب اتنی زیادہ دستیاب نہیں ہے جتنی ماضی میں ہوتی تھی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گاہک ہمیشہ یہ لذیذ مچھلی طلب کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم اپنے گاہکوں کو رہو، سلور، ماہسیر اور سنگھارا" مچھلی پیش کرتے ہیں، "جو کہ ہم زیادہ تر مچھلی فارموں سے خریدتے ہیں۔ مقامی مچھلی کی دستیابی انتہائی کم ہو گئی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500