سلامتی

ایران کی جانب سے پاسدارانِ انقلاب پر دہشت گرد حملے کا الزام پاکستان پر لگانے کی کوشش

از عبدالغنی کاکڑ

ایرانی سوگواران 16 فروری کو اصفہان میں ایک بینر تلے تدفین کے لیے جمع ہیں جس پر اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کے ان ارکان کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جو 13 فروری کو اس خودکش حملے میں مارے گئے تھے جس کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی تھی۔ [عطا کنار/اے ایف پی]

ایرانی سوگواران 16 فروری کو اصفہان میں ایک بینر تلے تدفین کے لیے جمع ہیں جس پر اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کے ان ارکان کی تصویریں بنی ہوئی ہیں جو 13 فروری کو اس خودکش حملے میں مارے گئے تھے جس کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی تھی۔ [عطا کنار/اے ایف پی]

کوئٹہ -- پاکستانی حکام اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران حالیہ خودکش حملے، جس میں اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کے 27 ارکان مارے گئے تھے، کو پاکستان کے ساتھ تناؤ کو بھڑکانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

اے ایف پی نے خبر دی کہ 13 فروری کو ایک خودکش بمبار نے بارود سے لدی ہوئی ایک گاڑی اس بس کے ساتھ ٹکرا دی جو جنوبی صوبہ سیستان-بلوچستان میں آئی آر جی سی کے جوانوں کو لے کر جا رہی تھی۔

ایران کی مقامی دہشت گرد تنظیم جیش العدلنے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ایرانی نشریاتی ادارے تسنیم نے خبر دی کہ آئی آر جی سی کی زمینی فورسز کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے منگل (19 فروری) کو کہا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق پاکستان سے تھا۔

گزشتہ اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک تصویر میں جیش العدل کے ارکان کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

گزشتہ اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک تصویر میں جیش العدل کے ارکان کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد سیل کا ایک اور مبینہ رکن جو حملے کا منصوبہ ساز تھا وہ بھی پاکستانی تھا۔

اس سے پہلے آئی آر جی سی کے کمانڈر انچیف میجر جنرل محمد علی جعفری نے بھی پاکستانی فوج اور انٹر سروسز انٹیلیجنس پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

16 فروری کو جعفری نے مرنے والوں کی تدفین کے لیے اصفہان میں جمع ہونے والے سوگواران کو بتایا، "حکومتِ پاکستان کو ان دہشت گرد گروہون کو پناہ دینے کی قیمت چکانی پڑے گی، اور یہ قیمت بلاشبہ بہت زیادہ ہو گی۔"

سنہ 2012 میں قائم ہونے والی، جیش العدل، سنی انتہاپسند گروہ جنداللہکی جانشین ہے، جس نے حالیہ برسوں میں ایرانی فوج پر، زیادہ تر صوبہ سیستان-بلوچستان میں، پے در پے حملے کیے ہیں۔

پاکستانی ایرانی دفاعی ناکامی کا 'ذمہ دار نہیں'

اسلام آباد میں ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار، محمد نوید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان ایران کی اندرونی دفاعی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ہے -- کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگائے گئے تمام الزامات دوطرفہ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہیں۔"

انہوں نے کہا، "جنوب مشرقی ایران میں ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری ایک ایرانی مسلح گروہ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔ یہ الزامات کہ جیش العدل کے عسکریت پسندوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، اور ایران نے ابھی تک اس کے جواز کے لیے پاکستان کو کوئی قابلِ کارروائی ثبوت مہیا نہیں کیا ہے۔"

نوید نے کہا کہ سرحد کی حفاظت کرنا ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔ "ہماری فوج سرحدی علاقوں میں موزوں حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی چوکس ہے؛ لہٰذا، ایران پر لازم ہے کہ -- اپنی ناکامی کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے -- اپنے علاقے میں غیر قانونی آمدورفت پر قابو پائے۔"

انہوں نے کہا، "ہماری وزارتِ خارجہ سفارتی ذرائع کے ذریعے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، اور ایران کو واضح طور پر ایک پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ ایسے بے بنیاد الزامات تعلقات کو خراب کر رہے ہیں۔"

پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے 17 فروری کو فون پر اپنے ایرانی ہم منصب،محمد جواد ظریفسے کہا کہ پاکستان حملے کی مشترکہ تحقیقات کے لیے تیار ہے۔

جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، جو بلوچستان کے کور کمانڈر اور گورنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے کہا، "13 فروری کے حملے کے متعلق ایرانی ردِعمل انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور پاکستان جیسے ہمسائے کے لیے بہت سخت ہے، جس نے ہمیشہ ایران کی مدد کی ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے ایران خود کو مجرم ثابت کر رہا ہے۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان کے خلاف حالیہ ایرانی بیانیہ ایک منصوبہ بندی لگتا ہے، کیونکہ اس سے پہلے، ایرانی حکام 13 فروری کے حملے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے، اور اب انہوں نے براہِ راست پاکستان پر الزام عائد کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ایران بنیادی طور پرپاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقاتکو ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے؛ لہٰذا، اس نے الزامات لگانے کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔"

ایرانی پالیسیوں کی ناکامی

کوئٹہ کے مقامی ایک اعلیٰ خفیہ اہلکار نے گمنامی کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، "حالیہامریکی اقتصادی پابندیوںکی وجہ سے ایران کو بہت بڑے بحران اور اپنے ہی عوام کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے؛ اس لیے یہ پاکستان کے سر الزام تھوپ رہا ہے۔"

انہوں نے کہا، "جیش العدل ایران کی ایک مقامی دہشت گرد تنظیم ہے، اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس گروہ نے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایران جس گروہ کو پاکستان کے ساتھ منسلک کر رہا ہے بنیادی طور پر ایرانی پالیسیوں کی پیداوار ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت پر لازم ہے کہ اپنے ناکام دفاعی نظاموں کی تحقیقات کرے، جو اس کے علاقے میں عسکریت پسندی کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔

اہلکار نے کہا، "سرحد کی حفاظت ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور آج ایران جس چیز کا سامنا کر رہا ہے وہ اس کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔"

سینیئر پاکستانی دفاعی اور سلامتی کے تجزیہ کار، حسن عسکری رضوی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ماضی میں ایران نے پاکستان پر اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کی موجودگی کے کئی الزامات لگائے ہیں۔ تاہم، یہ تازہ دعویٰ بہت سنگین ہے اور پاکستان کی جانب سے نتیجہ خیز ردِعمل کا متقاضی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی کی پشت پناہی والیفاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈکے ذریعے شام، عراق اور خطے کے دیگر ممالک میں جنگ کی ایرانی کفالت اس کے امن اور عدم مداخلت کے سرکاری مؤقف کی تردید کرتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ بھارت یا کوئی دوسرا ملک ہے جو مسلمانوں میں بھائی چارہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان، ایران اور پاکستان اکٹھے ہوں۔

جواب

پاکستان یقینی طور پر ذمہ دار نہیں ہے ایران کو بہتر سیکیورٹی اقدامات کرنے چاہیئں۔

جواب

پاکستان اس کے لیے ذمہ دار نہیں، بلکہ ایران پاکستان میں دہشتگردی کے لیے بھارتی شورشیوں کو مفت راہداری فراہم کرتا ہے۔ ایران کبھی پاکستان کا قابلِ اعتماد دوست نہیں رہا انہوں نے ہمیشہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھا۔

جواب

پاکستان کبھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوا. یہ ہمارے دشمن ہیں جو دونوں ملکوں کے مابین بھائی چارہ نہیں چاہتے.

جواب

جس کو جہنم کی آگ سے بچاو وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے آجاتا ہے

جواب

بالکل درست!!!! ایران کو ایسا رویہ بند کرنا چاہیے.

جواب