جرم و انصاف

کے پی میں نیا مسودۂ قانون تیار، خیراتی اداروں کو منضبط کرنے، دہشت گردی کے لیے عطیات کے استعمال کو روکنے کی کوشش

از اشفاق یوسفزئی

13 فروری کو پشاور میں ایک شخص خیراتی ادارے کے اشتہار کے سامنے بیٹھا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

13 فروری کو پشاور میں ایک شخص خیراتی ادارے کے اشتہار کے سامنے بیٹھا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور -- خیراتی اداروں کو منضبط کرنے اور ان کے دوبارہ اندراج کے لیے تیار کردہ ایک نیا مسودۂ قانون دہشت گردی اور دیگر جرائم میں سرمایہ کاری کے لیے خیراتی رقوم کے غلط استعمال کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔

خیبرپختونخوا (کے پی) کابینہ نے 7 فروری کو خیراتی اداروں کے قانون 2018 کے مسودے کی منظوری دی۔ مسودے کے قانون بننے سے قبل صوبائی اسمبلی کو اس کی منظوری دینا لازمی ہے۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ مجوزہ قانون دہشت گردی اور بدعنوانی میں ملوث گروہوں کا سراغ لگانے میں، نیز خیراتی اداروں کی جانب سے عطیات جمع کرنے کی نگرانی کرنے کے لیے ذمہ دار ایک تین تا پانچ رکنی کمیشن تشکیل دینے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنے کے لیے تمام خیراتی اداروں کے اندراج کو لازمی بنائے گا۔

کمیشن کو خیراتی اداروں کا رجسٹر بنانے کا کام تفویض کیا جائے گا جس میں "ان کے مقاصد، ذریعہ یا ذرائع آمدن، اور ان کے خرچ کی نوعیت" پر معلومات شامل ہوں گی اور کمیشن کے پاس کسی بھی خیراتی ادارے کے اندراج سے انکار کرنے کا اختیار ہو گا۔

13 فروری کو پشاور میں ایک شخص مسجد کے سامنے عطیات جمع کرنے کے ڈبے کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

13 فروری کو پشاور میں ایک شخص مسجد کے سامنے عطیات جمع کرنے کے ڈبے کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔ [اشفاق یوسفزئی]

خیراتی اداروں کو اپنے افعال کی نگرانی میں مدد دینے کے لیے ایک متولی تعینات کرنا درکار ہو گا۔ جو ایسا کرنے میں ناکام رہیں گے ان کے لیے کمیشن تعیناتی کر سکے گا۔

مسودہ حکومت کو کسی بھی تنظیم پر فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرنے اور تادیبی کارروائیاں کرنے کا مجاز بنائے گا۔ قانون کی خلاف ورزی پر سزاؤں میں چھ ماہ تک قید یا 100،000 روپے (715 ڈالر) تک جرمانہ شامل ہے۔

دہشت گردی کے خلاف ایک اقدام

پشاور کے مقامی ایک سیاسی تجزیہ کار، خادم حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ اقدام دہشت گردی کو روکنے کی خاطر خیراتی اداروں کے امور کو منضبط کرے گا۔

انہوں نے کہا، "نچلی سطح پر سینکڑوں تنظیمیں فعال ہیں اور بہبودِ عامہ کے لیے چندہ جمع کر رہی ہیں، لیکن کوئی بھی انہیں ملنے والے پیسے کا حساب کتاب نہیں کرتا۔"

کے پی وزیرِ اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مختلف قوانین کے تحت بہت سی تنظیمیں جن کا اندراج پہلے ہی ہو چکا ہے وہ صوبے میں دوبارہ سخت چھان بین کے عمل سے گزریں گی۔

انہوں نے کہا کہ متعصب گروہوں کی جانب سے عطیات جمع کرنے کی روک تھام کے لیے نیا قانون درکار تھا، جیسا کہ نیشنل ایکشن پلانمیں مطالبہ کیا گیا تھا، جو دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی تخفیف کا حکم دیتا ہے۔

انہوں نے کہا، گزشتہ برس، پاکستان نے 72 اداروں اور افراد کے بینک کھاتے منجمد کیے تھے جن کی تجویز اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سےان کے کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابطکی وجہ سے دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا، "ہم صورتحال کی بغور نگرانی کرنا اور اطمینان کرنا چاہتے ہیں کہ عطیات ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ لگیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔"

سخت تر قوانین، آگاہی کی ضرورت

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک پولیٹیکل سائنسدان، عبدالرحمان نے کہا کہ اس وقت، بہت سے خیراتی ادارے بغیر کسی نگرانی کے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کچھ صحت کے نام پر عطیات حاصل کرتے ہیں، دیگر حقوقِ نسواں اور غریبوں کی مدد کے لیے ۔۔۔ ان کے فنڈنگ کے ذرائع کا حساب ہونا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا کہ آگاہی کی مہمات میں عوام کو ترغیب دی جانی چاہیئے کہعطیات دینے سے قبل خیراتی اداروں کے کوائف کی تصدیق کر لیں۔

انہوں نے کہا، "یہ خوش آئند اقدام ہے کہ مسودہ پہلے سے اندراج شدہ تنظیموں کے دوبارہ اندراج کو یقینی بناتا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ اس سے حکام یہ یقینی بنانے کے لیے بااختیار ہو جائیں گے کہ وہ خیراتی ادارے باقاعدہ چھانٹی میں سے گزریں اور غیر اندراج شدہ گروہوں کو عطیات جمع کرنے سے روکیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل، میاں افتخار حسین نے کہا کہ مجوزہ قانون دہشت گردوں کی کمزور قانون سازی سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ختم کرے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، اور ہمیں زیادہ سخت قوانین کی ضرورت ہے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ انہیں عدالتوں سے سزائیں ملیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Acha kam hay

جواب