حقوقِ انسانی

پاکستانیوں کی جانب سے حکومت سے بچوں کے ساتھ ظلم کو روکنے کا مطالبہ

از آمنہ ناصر جمال

پاکستانی سول سوسائٹی کے کارکنان 11 جنوری 2018 کو اسلام آباد میں شمعیں اور زینب فاطمہ امین کی تصویر والے پلیس کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں، جسے اس مہینے کے شروع میں صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

پاکستانی سول سوسائٹی کے کارکنان 11 جنوری 2018 کو اسلام آباد میں شمعیں اور زینب فاطمہ امین کی تصویر والے پلیس کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں، جسے اس مہینے کے شروع میں صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

لاہور -- جیسے ہی صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زیادتی کے بعد قتل کر دی جانے والی 7 سالہ بچیزینب فاطمہ امین کی المناک موتکی پہلی سالگرہ آئی ہے، پاکستانی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے عفریت کو قابو کیا جائے۔

پچھلے سال میں بچوں کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کے بہت سے واقعات سے پاکستانیوں کو صدمہ پہنچا ہے، جس نے سوشل میڈیا صارفین کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے ہیش ٹیگ #PakistanisAgainstChildAbuse استعمال کرنے کی تحریک دی ہے۔

زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے علاوہ، جنوری 2018 میں مردان، خیبرپختونخوا (کے پی) میں ایک 4 سالہ بچہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور اسے قتل کر دیا گیا، جبکہ اگست 2018 میں سکھر، صوبہ سندھ میں دو آدمیوں نے ایک 6 سالہ بچی کو اغوا کر کے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔

ایک مقامی پولیس رپورٹ کے مطابق، صرف پچھلے سال ہیپنجاب میں نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کےکم از کم 875 واقعات درج کیے گئے تھے۔

پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے رازداری کی شرط پر بتایا، "ایسے واقعات کا صرف بہت چھوٹا سا حصہ پولیس کو رپورٹ ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ خوف ہوتے ہیں کہ متاثرہ بچے کے ساتھ ہمدردی والا سلوک نہیں کیا جائے گا۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایلیمنٹری سطح پر اسکولوں میں جنسی تعلیم لازمی ہونی چاہیئے، جس کا آغاز گھر پر والدین کی جانب سے مشورے سے ہونا چاہیئے۔ معاشرہ اسکول میں جنسی تعلیم متعارف کروانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔"

انہوں نے کہا کہ متاثرین اکثر عوام میں شرمندگی سے بچنے کے لیے ایسے واقعات کو چھپاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "مجرموں کے لیے نظامِ انصاف کے ضوابط پیچیدہ اور تھکا دینے والے ہیں؛ متاثرہ فرد خوفزدہ رہتا ہے اور حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "شرم کی بات صرف جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے ہے، نہ کہ ان کا شکار بننے والوں یا متاثرین کے لیے۔ بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ غیر آرام دہ چھیڑ چھاڑ، یا بدتر، زیادتی کے متعلق بات کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے۔"

لاہور میں سروسز ہسپتال میں ایک سینیئر ماہرِ نفسیات، ڈاکٹر ناصر سعید خان نے کہا کہ جنسی بدسلوکی ایک پرتشدد جرم ہے، اور عدم تشدد کے بارے میں اسباق کا آغاز گھر پر ہوتا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس بارے میں اسباق کہ اچھی یا بری نیت سے چھونے کے درمیان تمیز کیسے کرنی ہے، اجنبیوں کے میل جول سے کیسے اجتناب کرنا ہے اور اگر کسی کو کسی واقف یا اجنبی کی جانب سے غیر مناسب طریقے سے چھوا جاتا ہے تو والدین کو کیسے بتانا ہے، نیز صلاح کاری کیسے کرنی ہے ان سب کی ضرورت ہے۔"

انتباہی اعدادوشمار

اسلام آباد کی مقامی ایک غیر سرکاری تنظیم، ساحل، جو جنسی بدسلوکی پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے بچوں کے تحفظ کے امور پر کام کرتی ہے، کی جانب سے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان بھر میں روزنہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 11 کی تعداد تک واقعات رونما ہوتے ہیں۔

ساحل بچوں کے لیے ایک ایسا حفاظتی ماحول تیار کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہے جو تشدد اور استحصال کی تمام اشکال سے پاک ہو۔

جنوری اور جون 2018 کے درمیان، پورے پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2،322 واقعات اخباروں میں شائع ہوئے تھے۔

ساحل کے مطابق، اس عرصے میں اغواء کے 542 واقعات، بدفعلی کے 381 واقعات، بچوں کی گمشدگی کے 236 واقعات، جنسی زیادتی کی کوشش کرنے کے 224 واقعات، اجتماعی بدفعلی کے 167 واقعات، اجتماعی زیادتی کے 92 واقعات اور بچپن میں شادیوں کے 53 واقعات دیکھے گئے تھے۔

اسی عرصے کے دوران، پولیس نے جنسی زیادتی کے بعد قتل کے 57 مقدمات درج کیے۔

اعدادوشمار میں انکشاف ہوا کہ ان واقعات میں سے 65 فیصد واقعات پنجاب میں، 25 فیصد سندھ میں، 3 فیصد اسلام آباد میں، 3 فیصد کے پی میں اور 2 فیصد بلوچستان میں رپورٹ ہوئے، جبکہ 21 واقعات پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں اور 2 واقعات گلگت بلتستان میں رپورٹ ہوئے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف قانون سازی

مبصرین کا کہنا ہے، جبکہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں، خاندانوں اور معاشرے میں آگاہی بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کو انصاف ملے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پچھلے جمعہ (11 جنوری) کے روز اسلام آباد کی مقامی حقوقِ اطفال تحریک کی جانب سے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہر اسکول میں انسانی حقوق کی تعلیم دی جائے گی اور بچوں کے تحفظ کی آگاہی دینے کے لیے مقامی سطح پر ایک بہت بڑی مہم چلائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکام جلد ہی وزارتِ داخلہ اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورت کر کے بچوں کے تحفظ کے ایک طریقۂ کار کا اطلاق کریں گے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق، مزاری نے کہا، "اصل مسئلہ لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کا ہے۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔"

حقوقِ اطفال تحریک کی ایک رکن، حبیبہ سلمان نے کہا کہ پولیس بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مناسب کارروائی نہیں کرتی۔

مقامی نیوز رپورٹس کے مطابق، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایسے جرائم جن میں بچے ملوث ہوں کی تحقیقات کرنے کے لیے پولیس کی استعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پولیس کو انسدادی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ 6 فروری کو سماء کی جانب سے شائع کردہ ایک بلاگ میں ایک آزاد صحافی ثمن صدیقی نے لکھا کہ پاکستان میں، "مجرم، زنا بالجبر کرنے والے، [اور] بچوں اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے استغاثہ کی کمزوریوں اور غیر مناسب تفتیش کی وجہ سے الزامات سے بری ہو جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں حالیہ اضافہ واضح طور پر ہمارے پراگندہ اور ناخواندہ معاشرے کا تاریک چہرہ دکھاتا ہے۔ ایسے جرائم کے لیے مضبوط تر اور مؤثر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

غائب ہونے والے بچے امریکہ یا جینیوا نہیں گئے، وہ یہں اردگرد تھے اور اگر ہمیں ان بچوں سے پیار ہوتا اور معاشرے کو اس تکلیف کو محسوس کرنے کا احساس ہوتا تو انہیں تلاش کیا جا سکتا تھا۔ ان غائب شدہ بچوں کے بارے میں مساجد اور سوشل میڈیا جیسے انتہائی مؤثر ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے کیوں نہیں بتایا گیا۔ بچوں پر حملے اور ان کی موت سے قبل انہیں تلاش کیا جا سکتا تھا، اگر معاشرے ذمہ دار اور بیدار ہوتے، لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے اور بلا شبہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم بجائے اپنی جدوجہد کرنے کے بجائے صرف حکومت سے پوچھتے رہے۔ دوسرے یہ کہ مجرموں کو نام نہاد پولیس طریقِ عمل، قانونی مشیر کی بروقت مدد اور ناقص پولیس تفتیش کی جانچ پڑتال کے لیے تیسرے فریق کی جانب سے تفتیش کی عدم دستیابی کا خوب تحفظ حاصل ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ فوری طور پر لاپتہ بچوں کی تصاویر یا شناختیں شائع کر کے بڑے پیمانے پر بچوں کے لاپتہ ہونے کا اعلان کیا جائے اور اگر قصوروار پکڑے جائیں تو انہیں ضرور آزادانہ اور شفافانہ میڈیا ٹرائل کے ساتھ سرِ عام پھانسی دے دی جائے۔

جواب