صحت

کے پی پولیس ہنگامی حالات میں خون کا عطیہ کرنے والوں کو ضرورت مندوں سے جوڑ رہی ہے

جاوید خان

پشاور میں بم دھماکے کے بعد ایک سپاہی 5 جنوری کو خون کا عطیہ دے رہا ہے۔

پشاور میں بم دھماکے کے بعد ایک سپاہی 5 جنوری کو خون کا عطیہ دے رہا ہے۔

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کی پولیس نے ایک "بلڈ ڈونرز کارنر" قائم کیا ہے تاکہ ایسے پولیس افسران اور شہریوں کے ناموں کو درج کیا جا سکے جو دہشت گردانہ حملے یا کسی دوسری ہنگامی حالت میں خون کا عطیہ دینے کے لیے رضامند ہوں۔

کے پی پولیس کے ترجمان وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تقریبا 341 عطیہ دہندگان نے پہلے ہی اپنے نام اور پتے درج کروا دیے ہیں کہ ہنگامی حالت یا کسی اور ضرورت میں ان سے خون کے عطیہ کے لیے رابطہ کیا جائے"۔

اس فہرست کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اندراج شدہ عطیہ دہندگان ہسپتالوں کو خون کی ضرورت کے وقت فوری طور پر مدد فراہم کر سکیں۔

احمد نے کہا کہ "ہم نے ہزاروں لوگوں کو کسی غیر متوقعہ بڑے حادثے کے بعد، خواہ وہ پشاور میں ہو یا کسی دوسرے شہر میں، احتیاط کے طور پر، ہسپتال میں خون کا عطیہ دینے کے لیے جمع ہوتے ہوئے دیکھا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس فورس کے پاس خون کا عطیہ دینے والوں کے اندراج سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ رضاکاروں کو ہسپتالوں میں پہنچنے سے بھی پہلے خون کو عطیات دستیاب ہوں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس پہلے ہی رابطہ کرنے اور اندراج شدہ افراد کے خون کے گروپ کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں، خصوصی طور پر ان افراد کی جو خون کی او نیگیٹو قسم، جس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، رکھتے ہیں۔

خون کا عطیہ دینے کی باقاعدہ مہمات

بلڈ ڈونرز کارنر پولیس کی خون کے عطیات اکٹھا کرنے کی باقاعدہ مہمات میں ایک اضافہ ہوں گے، جو مقامی ہسپتالوں اور نجی تنظیموں، جو کہ روزانہ ہزاروں مریضوں کو خون مہیا کرتے ہیں، کی مدد کرتی ہیں۔

پشاور میں حمزہ فاونڈیشن ویلفیئر اینڈ بلڈ ٹرانسفیوژن سروسز کے مینجنگ ڈائریکٹر اعجاز علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمارے پاس تھیلیسیمیا اور خون کی دیگر بیماریوں کے 1,139 اندراج شدہ مریض ہیں جو ماہانہ یا دو ہفتوں کے بعد خون مہیا کیا جاتا ہے"۔

تھیلیسیمیا خون کی ایک جینیاتی بیماری ہے جس سے خون کی شدید کمی، ہڈیوں کے مسائل اور دیگر علامات کا خون کی مستقل تبدیلی سے علاج کیا جاتا ہے۔

علی نے بتایا کہ تھیلیسیمیا کے 40 سے 50 مریض، جن میں زیادہ تر کم عمر ہیں، حمزہ فاونڈیشن سے خون لگواتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ "ہم طلباء اور مختلف اداروں اور اس کے ساتھ ہی زندگی کے مختلف طبقات سے خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے باقاعدگی سے بلڈ کیمپ لگاتے ہیں اور انہیں ہنگامی حالات میں یا خون کی بیماریوں کے شکار افراد کے لیے عطیہ کرتے ہیں"۔

علی نے مزید کہا کہ حمزہ فاونڈیشن نے کئی مواقع پر، کے پی پولیس اور نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس کے ساتھ مل کر بھی خون کے عطیات کے کیمپ لگائے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "سینئر اور جونئیر پولیس افسران کی ایک بڑی تعداد ہنگامی حالات میں ان مریضوں کے لیے باقاعدگی سے خون دیتی ہے"۔

ایک شہری فریضہ

پشاور کیپیٹل سٹی پولیس افسر قاضی جمیل الرحمان کے مطابق، پولیس افسران کے علاوہ، مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی خون کے عطیہ کے کیمپوں میں شرکت کرتی ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سارے خیبرپختونخواہ اور ملک کے دوسرے حصوں سے سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے اگست کے پہلے ہفتہ میں غریب مریضوں کے لیے خون کے عطیات دیے"۔

پولیس فورس 4 اگست کو یومِ شہدا کے موقع پر افسران سے سالانہ خون کے عطیات اکٹھے کرتی ہے تاکہ ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔

رحمان نے کہا کہ "علاوہ ازیں، دہشت گردانہ حملے یا کسی اور ہنگامی حالت کے باعث جب بھی خون کے عطیات کے لیے اپیل کی گئی ہے تو پولیس فورس اور عوام نے ہمیشہ اس کا جواب دیا ہے"۔

پشاور میں قائم ایک نجی یونیورسٹی کے طالبِ علم الطاف علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں ایسی مقامی تنظیموں کو باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتا ہوں جو ہنگامی حالات یا مختلف قسم کی خون کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے خون کے عطیات جمع کرتی ہیں"۔

علی نے کہا کہ وہ کے پی پولیس کے بلڈ ڈونرز کارنر کے ساتھ بھی رجسٹر ہوں گے تاکہ فورس ضرورت کے وقت اس سے رابطہ کر سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ وہ کم سے کم چیز ہے جو کوئی اپنے لوگوں اور ملک کے لیے کر سکتا ہے اور میں ہمیشہ اس کے لیے تیار ہوں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500