صحت

عسکریت پسند، مذہبی انتہاپسند پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں

از اشفاق یوسفزئی

محکمۂ صحت کے اہلکار پشاور میں 21 تا 25 نومبر کو گھر گھر جانے کی مہم کے دوران بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

محکمۂ صحت کے اہلکار پشاور میں 21 تا 25 نومبر کو گھر گھر جانے کی مہم کے دوران بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ [کے پی محکمۂ صحت]

پشاور -- طالبان عسکریت پسند اور مذہبی انتہاپسند والدین کو اپنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے سے انکار کرنے پر مجبور کر کےافغانستان اور پاکستان میں پولیو کے خلاف ویکسینیشن کی کوششوںمیں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، سنہ 2018 میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے نئے کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں -- افغانستان میں 21 اور پاکستان میں 8۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے ترجمان برائے پولیو، بابر عطاء نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مذہبی انتہاپسند اور عسکریت پسند بچوں کو مفلوج بنانے کے لیے پولیو کے قطروں (او پی وی) کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں۔ وہ عالمی ادارۂ صحت کے پولیو کے خاتمے کے منصوبے کے لیے اصل خطرہ ہیں۔"

انہوں نے کہا، "پولیو کے تصدیق شدہ کیسز کے لگ بھگ نصف نے پولیو کے قطروں کی کوئی خوراک نہیں لی تھی جبکہ دیگر نے چند خوراکیں لی تھیں، جس نے انہیں وائرس سے محفوظ نہیں رکھا۔"

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 13 ستمبر کو پشاور میں ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ [ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ برائے قبائلی اضلاع]

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 13 ستمبر کو پشاور میں ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ [ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ برائے قبائلی اضلاع]

سنہ 2014 میں طالبان کی دھمکیوں اور پولیو کے قطرے پلانے والے اہلکاروں کے بلاجھجھک قتل کی وجہ سے پاکستان میں پولیو کے 306 کیس ریکارڈ ہوئے تھے۔ فوج کی جانب سےآپریشن ضربِ عضب کے ذریعے طالبان کو قبائلی علاقہ جات سے نکالنے پر، سنہ 2015 میں پورے ملک میں کیسز کی تعداد کم ہو کر 54، اور سنہ 2016 اور 2017 میں 20 ہو گئی۔

ویکسین مخالف پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا

حکام متنبہ کرتے ہیں، مجموعی صورتحال، تاہم، خوفناک ہے اور پولیو کے قطروں کے خلاف کبھی ختم نہ ہونے والے پراپیگنڈے کی وجہ سے بہتر نہیں ہو گی۔

انسدادِ پولیو مہم سے منسلک، کے پی کے ایک ڈاکٹر جواد خان کے مطابق، مثال کے طور پر، خیبرپختونخوا (کے پی) میں سنہ 2018 میں 51،000 سے زائد بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار ہوا، جس می بنیادی وجہ مذہبی گروہوں کی مخالفت تھی۔

انہوں نے کہا، "والدین مختلف وجوہات کی بناء پر حفاظتی قطرے پلانے سے انکار کرتے ہیں، جس سے بچے بچپن کی نقصان دہ بیماری کی زد میں آ جاتے ہیں۔ پشاور میں، 30،000 بچوں نے قطرے نہیں پیئے ان علاقوں جن میں مختلف مذہبی گروہوں [کا اثرورسوخ] تھا۔"

اہلحدیث دینی تحریک ان گروہوں میں سے ایک ہے جو بڑی شدت سے ویکسینیشن کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔

جواد نے کہا، "گروہ یہ دلیل دیتا ہے کہ کسی بھی بیماری کے وقوع پذیر ہونے سے قبل اس کا علاج کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے والدین پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں۔"

ایک اسلامی سیاسی جماعت، تحریک لبیک پاکستان بھی خاندانوں کی پولیو کے قطرے پلانے کے لیے محکمۂ صحت کے اہلکارں کو گھروں میں گھسنے کی اجازت دینے کے لیے حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ یہ حفاظتی قطروں کے متعلق کئی غلط اطلاعات پھیلاتی ہے، جس میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ حفاظتی قطرے ایک مغربی سازش ہے۔

جواد نے کہا، "اس صورتحال نے ہمارے بچوں کو بلیڈ کی دھار پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم کے پی اور قبائلی اضلاع میں ہر مہم میں 7 ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں، لیکن چند بچے جو قطرے نہیں پیتے وہ ہماری کوششوں کے ناکام ہونے کا سبب بن رہے ہیں۔"

حکومت، علمائے دین پولیو کے خاتمے میں مخلص

وفاقی وزیر برائے صحت خدمات، ضوابط اور رابطہ عامر کیانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مذہبی انتہاپسند اور عسکریت پسند ہمارے بچوں کو صحت مندی سے پروان چڑھتا نہ دیکھنے کے اٹل ارادے پر کاربند ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ماضی میں عوام کو تعلیم اور صحت کے علاج سے محروم رکھنے کے لیےعسکریت پسندوں نے اسکولوں کو تباہ کیا ہےاور صحت کے مراکز کو بھی، لیکن ہم بھی عالمی وعدے کے مطابق پولیو کے خاتمے میں مخلص ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں، طالبان جنگجوؤں نے کم از کم 60 پولیو اہلکاروں کو قتل کرنےکے علاوہ، پولیو کے قطروں کے خلاف فتوے جاری کیے ہیں۔

کیانی نے کہا، "لیکن ہم دھمکیوں سے بے پرواہ ہیں اور ویکسین سے قابلِ انسداد اس بیماری کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔"

کیانی نے کہا، "ہم نے چوٹی کے علمائے دین کی حمایت حاصل کی ہے جو عوام کو بتا رہے ہیں کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنا والدین کا مذہبی فریضہ ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ ان والدین کی تعداد کم ہو رہی ہے جو اپنے بچوں کو قطرے پلوانے سے انکار کرتے ہیں۔

پشاور کے ایک مقامی عالمِ دین، مولانا عبدالوحید نے کہا کہ وہ عوام کو ترغیب دیتے رہے ہیں کہ وہ ویکسینیشن کو قبول کریں کیونکہ یہ بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ ان کے بچوں کو حفاظتی ادویات ملیں، نہ صرف پولیو کے خلاف بلکہ بچپن کی تمام بیماریوں کے خلاف۔"

عوام کو قائل کرنے کی یہ کوشش مؤثر ثابت ہوئی ہے کیونکہ مکین عسکریت پسندوں اور انتہاپسندوں کے ویکسینیشن کے خلاف پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہیں۔

وحید نے کہا، "ہمیں ہر مہم میں پانچ سال سے کم عمر 25 ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی بھی معذوری سے محفوظ رہ سکیں،" انہوں نے مزید کہا کہویکسینیشن کو بین الاقوامی علمائے دین کی تائید حاصل ہے۔

14 نومبر کو جدہ، سعودی عرب میں اپنے اجلاس کے بعد ایک بیان میں اسلامی مشاورتی گروپ (آئی اے جی) برائے خاتمہ پولیو نے کہا "کنسورشیم نے بچپن میں معمول کی تمام ویکسینیشنز کی سلامتی اور اثرپذیری پر اپنے بھروسے کا اعادہ کیا ۔۔۔ اور تسلیم کیا کہ یہ اسلامی شریعت کے مطابق ہے۔"

بیان کے مطابق، اسلامی رابطہ تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف عثیمین نے کہا، "اس حقیقت کے باوجود کہ پولیو کا خطرہ اتنا سکڑ گیا ہے کہ ہم باقی ماندہ کیسز کو گن سکتے ہیں اور ان کی تحقیقات کر سکتے ہیں، ہم آسودہ خاطر ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ یہ محض اعدادوشمار ہیں۔ یہ انسان ہیں اور ہر انسانی جان اہمیت کی حامل ہے۔"

افغانستان پولیو کو روکنے کے لیے مصروفِ عمل

افغان وزیر برائے عوامی صحت فیروزالدین فیروز کے مطابق دہشت گرد افغانستان کے مختلف حصوں میں پولیو وائرس پھیلانے کے جرم کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "طالبان جنگجو محکمۂ صحت کے اہلکاروں کو بچوں کو قطرے نہیں پلانے دیتے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پینے والوں کو تولیدی طور پر ناکارہ بنانے اور مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں، جو کہ سچ نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ افغان حکام نے بھی عوام کو ویکسینیشن کی سلامتی کے متعلق قائل کرنے کے لیے علمائے دین کو شامل کیا ہے۔

فیروز نے کہا، "ہم 6 ملین کی ہدف آبادی میں سے 500،000 بچوں کو قطرے پلانے میں ناکام رہے ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ طالبان کے اثرورسوخ میں کمی کے ساتھ، صورتحال بہتر ہو جائے گی۔"

حفاظتی ادویات نہ لینے والے بچے معاشرے کے دیگر ارکان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں جو حفاظتی ادویات وصول نہ کرنے کے لیے جائز طبی وجوہات کے حامل ہوتے ہیں، جیسے کہ نوزائدہ بچے اور خراب مدافعتی نظام کے حامل افراد۔

فیروز نے کہا، "ہم پولیو کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ وائرس کیسرحد کے آر پار منتقلی کو روکنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔

فیروز نے کہا، "ہم نے سرحد پر عبوری مقامات تشکیل دیئے ہیں جہاں بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ زیادہ خطرے والے سرحدی علاقوں کے قریب 484 مستقل عبوری مقامات ہیں جہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

افغانستان اور پاکستان کے چار روزہ دورے کے بعد، عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدورس ادھنوم غیبریوس نے 8 جنوری کو شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا، "ہم سب کو پولیو کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمے کے اس آخری میل پر اپنی پوری کوشش کرنی چاہیئے۔ سنہ 2019 کے لیے میری خواہش پولیو کا پھیلاؤ صفر ہونا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میں نہیں جانتا لیکن میں نے انگریزی میں ایک ویڈیو دیکھی جس میں کہا گیا کہ یہ مضر ہے جبکہ دوسری جانب میں حیران ہوں کہ کیوں کافر ہر ماہ اربوں ڈالر مسلمانوں پر خرچ کرتے ہیں۔

جواب