دہشتگردی

2018 میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں 45 فیصد کمی

جاوید محمود

21 نومبر کو کوئٹہ میں حضرت محمّدؐ کے یومِ ولادت کو منانے کے لیے عیدِ میلاد النبی کے دوران سیکیورٹی اہلکار ایک ریلی کی قیادت کر رہے ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

21 نومبر کو کوئٹہ میں حضرت محمّدؐ کے یومِ ولادت کو منانے کے لیے عیدِ میلاد النبی کے دوران سیکیورٹی اہلکار ایک ریلی کی قیادت کر رہے ہیں۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

اسلام آباد – اسلام آباد اساسی پاکستان ادارہ برائے علومِ تنازعات و سلامتی (پی آئی سی ایس ایس) کی جانب سے تیار کردہ ایک اختتامِ سال کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2017 کے مقابلہ میں 2018 میں عسکریت پسندانہ حملوں میں ایک "نمایاں کمی" دیکھی گئی۔

یکم جنوری میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، 2018 میں عسکریت پسندانہ حملوں میں 45 فیصد کمی کے ساتھ ساتھ ان حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی اموات میں 37 فیصد کمی، جبکہ زخمی ہونے کے واقعات میں 49 فیصد کمی آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس عسکریت پسندوں نے ملک کے مختلف مقامات پر تقریباً 228 دہشتگردانہ حملے کیے۔

ان حملوں میں 356 عام شہریوں، 152 سیکیورٹی اہلکاروں اور 67 عسکریت پسندوں سمیت 577 ہلاکتیں ہوئیں۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے 2 شہری بھی شہید ہوئے۔

ایک گراف میں 2015 سے اب تک پاکستان بھر میں دہشتگردی سے متعلقہ واقعات میں نمایاں کمی دکھائی گئی ہے۔ [پی آئی سی ایس ایس]

ایک گراف میں 2015 سے اب تک پاکستان بھر میں دہشتگردی سے متعلقہ واقعات میں نمایاں کمی دکھائی گئی ہے۔ [پی آئی سی ایس ایس]

693 شہریوں اور 261 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عسکریت پسندانہ حملوں میں 959 افراد زخمی بھی ہوئے۔

پی آئی سی ایس ایس نے خبر دی کہ 2014 کے بعد سے حملوں کی ماہانہ اوسط تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2014 میں 134، 2015 میں 59، 2016 میں 42 اور 2017 میں 35 سے کم ہو کر 2018 میں اوسط ماہانہ 19 حملے ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ خود کش حملوں میں بھی ملک گیر کمی واقع ہوئی، جو کہ 2017 کے 23 حملوں کے مقابلہ میں 2018 میں تقریباً 18رہ گئے۔

جولائی، جبجولائی، جب، اس برس کا مہلک ترین مہینہ تھا۔

پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، جولائی میں انتخابی ریلیوں اور مہمات کو ہدف بنانے والے عسکریت پسندانہ حملوں میں تقریباً 228 افراد جاںبحق ہوئے – جو اس برس میں دہشتگردی سے ہونے والی اموات کے 40 فیصد پر مشتمل ہے۔ جولائی میں دیگر 423 زخمی ہوئے۔

پی آئی سی ایس ایس نے "عسکریت پسندانہ حملوں میں ہونے والی مسلسل کمی" کو جون 2014 میں شروع ہونے والےآپریشن ضربِ عضبکا مرہونِ منت قرار دیا۔

سلامتی میں عسکری آپریشنز کا ’اہم کردار‘

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر سیکیورٹی تجزیہ کار برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "قبائلی علاقوں میں شروع ہونے والے متعدد عسکری آپریشنز نے ملک میں عسکریت پسندانہ حملوں کی انسداد میں اہم کردار ادا کیا۔"

انہوں نے کہا، "ان آپریشنز نے متعدد کلیدی عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا۔"

"شاہ نے کہا، "اگرچہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)اور دیگر کالعدم عسکریت پسند گروہ افغانستان سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں، تاہم انہیں ملک میں خونریزی کو تقویت دینے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس،سرحد پر باڑ لگائے جانےاور عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز سمیت، سخت سیکیورٹی نے عسکریت پسندی کی انسداد میں مدد کی ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیکیورٹی تجزیہ کار کرنل (ریٹائرڈ) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "سیکیورٹی ایجنسیوں کو ملک بھر میں، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں عسکریت پسند مضبوط ہیں، مزید بھرپور طریقے سے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز جاری رکھنے چاہیئں۔"

انہوں نے کہا، "حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کوغیر قانونی ترسیلِ زر اور دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیاتمیں ملوث افراد کو لگام ڈالنے کے لیے اپنی گرفت مزید مضبوط کرنی چاہیئے اور ان کے سیاسی اور مذہبی الحاق سے قطع نظر ان کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500