سلامتی

طالبان کا ہتھیاروں کا ذخیرہ افغان جنگ کو وسعت دینے کی ایرانی کوششوں کی طرف اشارہ ہے

از سلیمان

مقامی حکام کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے 9 دسمبر کو افغانستان کے شہر غزنی میں ایک رہائشی گھر سے ہتھیاروں اور گولہ بارود کا ذخیرہ قبضے میں لیا۔ مقامی حکام کے مطابق، طالبان کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں کم از کم نو ایرانی ساختہ ہتھیار موجود تھے۔ ]سلیمان[

مقامی حکام کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے 9 دسمبر کو افغانستان کے شہر غزنی میں ایک رہائشی گھر سے ہتھیاروں اور گولہ بارود کا ذخیرہ قبضے میں لیا۔ مقامی حکام کے مطابق، طالبان کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں کم از کم نو ایرانی ساختہ ہتھیار موجود تھے۔ ]سلیمان[

کابل -- حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے قبضے میں ملنے والا ایرانی ساختہ ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران افغانستان میں جنگ کو وسعت دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔

سیکورٹی فورسز نے ہتھیاروں کا یہ ذخیرہ 9 دسمبر کو افغانستان کے شہر غزنی کے باہر ایک مہم کے دوران دریافت کیا۔

غزنی صوبائی پولیس کے سربراہ غلام داود تاراخیل نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "انٹیلیجنس کی خبروں کی بنیاد پر کیے جانے والے ایک مشترکہ آپریشن میں سیکورٹی فورسز نے ایرانی ساختہ ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ایک ذخیرے کو دریافت اور قبضے میں لیا جس کا تعلق طالبان سے تھا"۔

ریڈیو فردہ کے مطابق، غزنی کے گورنر وحید اللہ قلیمزئی نے کہا کہ "جب یہ ہتھیار ایران سے افغانستان آئے تھے اور انہیں مختلف صوبوں میں سرکش عناصر میں تقسیم کیا گیا تھا، تو ہمارے جاسوسی اور انٹیلجنس کے ساتھیوں نے ہمیں مطلع کیا تھا کہ کچھ ہتھیاروں کو غزنی میں منتقل کر دیا گیا ہے"۔

عدم تحفظ کی مدد کرنا

تاراخیل نے کہا کہ "ایرانی ساختہ ہتھیار جنگ کو طول دینے کے لیے افغانستان لائے جا رہے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ہتھیاروں کو اکثر ان ڈسٹرکٹس میں لایا جاتا ہے جو افغان حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ایران 100 فیصد ان حالیہ واقعات میں ملوث ہے جنہوں نے غزنی میں عدم تحفظ پھیلایا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ امر اس وقت واضح ہو گیا جب طالبان نے غزنی شہر پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ "یہ سب سرگرمیاںایران کی افغانستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کی واضح نشانی ہیں۔ اس بات کے اور ایران کی دہشت گردوں کی حمایت کے بارے میں کافی زیادہ ثبوت موجود ہیں"۔

ہرات سے تعلق رکھنے والے سیاسی و عسکری تجزیہ نگار عارف کیانی نے کہا کہ "ایران کی طرف سے افغانستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت، جس میں طالبان کو مالی و عسکری امداد دینا، گروہ کے عسکریت پسندوں کو تربیت دینا اور ایران کے اندر طالبان کے ارکان کو پناہ دینا شامل ہیں کا، حصہ ہے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "اس کا مطلب ہے کہ ایران افغانستان کے ساتھ براہِ راست جنگ کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "نوجوان افغان مہاجرین کی بھرتی اور انہیں افغانستان میں طالبان کی صفوں میں لڑنے کے لیے بھیجنا بہت زیادہ واضح ہیں اور انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایسی بااعتماد خبریں موجود ہیں کہ ایران میں بنیاد رکھنے والے کچھ طالبان کمانڈر اکثر، افغانستان کے مغربی صوبوں جیسے کہ فراہ اور نمروز کا سفر کرتے ہیں"۔

کیانی نے کہا کہ "اس وقت،ایران کی حکمتِ عملی بغاوت کی حمایت کرنا اور افغانستان کے نسلی گروہوں کو تقسیم کرنا ہے تاکہ وہ ہمارے ملک میں اپنے سیاسی و عسکری مقاصد کو حاصل کر سکے"۔

افغان نوجوانوں کو تربیت دینا

غزنی صوبہ کے گورنر کے ترجمان محمد عارف نوری نے کہا کہ "یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ سیکورٹی فورسز کو غزنی سے ایرانی ساختہ ہتھیار ملے ہیں۔ درحقیقت افغان سیکورٹی فورسز نے میدانِ جنگ میں ان گنت مواقع پر طالبان سے ایرانی ہتھیار قبضے میں لیے ہیں"۔

علاوہ ازیں، ایران بے دست و پا افغان نوجوانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے اور انہیں طالبان کے حوالے کرتا رہا ہے۔

نوری نے کہا کہ "کچھ نوجوان افعان جو ایران میں کام کرنے کے لیے گئے تھےاور جنہیں ایرانی حکام نے ایران کے اندر گرفتار کر لیا تھا یا جنہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دی گئی تھی، انہیں ایران میں بنیاد رکھنے والے طالبان کے گروہوں کے حوالے کر دیا گیا تاکہ وہ ان نوجوانوں کو بھرتی کر سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ان نوجوانوں کو پھر زاہدان کے شہر اور ایسے دوسرے علاقوں جو افغانستان کے ساتھ سرحد رکھتے ہیں، میں کام کرنے والے ایرانی کارکنوں کی طرف سے عسکری تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ اس تربیت کے بعد، ان نوجوانوں کو لڑنے کے لیے واپس افغانستان بھیج دیا جاتا ہے"۔

نوری نے کہا کہ "ہمیں یہ معلومات ایسے بہت سے افغان نوجوانوں سے ملی ہیں جنہوں نے طالبان کو چھوڑ دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "غزنی کا ایک اسٹریٹجک مقام ہے۔ اسی لیے طالبان کا خیال ہے کہ اگر وہ اس صوبہ کے انچارج بن گئے تو وہ ہمسایہ میں واقعہ آٹھ صوبوں تک لاجسٹک راستے ڈھونڈ سکتے ہیں"۔

ایران جنگ کا دائرہ وسیع کر رہا ہے

پکتیکا صوبہ کے سابقہ گورنر امین اللہ شارق نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام پھیلانے میں ایران تاریخی طور پر مدد کرتا رہا ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "افغانستان کی خانہ جنگی (1996-1992) جس نے کابل کو تباہ اور ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا کے دوران، ایران نے دشمن جماعتوں کو ہتھیار اور دیگر عسکری سہولیات فراہم کی تھیں"۔

انہوں نے کہا کہ اب، ایران کی افغانستان میں طالبان کے لیے مدد وسیع ہو رہی ہے۔

شارق نے کہا کہ "ماضی میں، تہران نے مغرنی صوبوں جن میں فراہ، نمروز، ہرات، بدغیس اور غور اور اس کے ساتھ ہی ہرات، ارزگان اور قندھار کے جنوبی صوبوں میں طالبان کو ہتھیار اور عسکری امداد فراہم کی تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "مرکزی اور شمالی صوبوں میں ایران کی طالبان کو ہتھیاروں کی فراہمی کا مطلب جنگ کا پورے افغانستان میں پھیل جانا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کو ان ممالک کو روکنا چاہیے جو طالبان کی مدد کر رہے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جهوٹی خبر

جواب

کبھی کوئی خبر اصل حقائق کے ساتھ بھی شائع کر لیا کریں۔ افسانہ نگاری اب چھوز دیں

جواب

میں نہیں سمجھتا کہ ایران افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کر رہا ہے۔

جواب