صحت

پاکستان تمباکو اور میٹھے مشروبات پر 'گناہ ٹیکس' لگا کر صحتِ عامہ کے لیے سرمایہ فراہم کرنا چاہتا ہے

اشفاق یوسف زئی

ایک پاکستانی شہری 31 جنوری 2017 کو کراچی میں سگریٹ پی رہا ہے۔ ]رضوان تبسم/ اے ایف[ پی

ایک پاکستانی شہری 31 جنوری 2017 کو کراچی میں سگریٹ پی رہا ہے۔ ]رضوان تبسم/ اے ایف[ پی

اسلام آباد -- پاکستان تمباکو نوشی اور میٹھے مشروبات پر "گناہ ٹیکس" لگانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم کو صحت عامہ کی بنیادی سہولیات کو بہت بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ وفاقی وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن (این ایچ ایس) عامر محمود کیانی نے 5 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والی ایک عوامی صحتِ عامہ کی کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت، صحت کے بجٹ کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک بڑھانے کا عزم رکھتی ہے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ایک ایسا طریقہ "تمباکو کی مصنوعات اور میٹھے مشروبات پر گناہ ٹیکس لگانے کا ہے۔ جمع ہونے والی رقم کو صحت عامہ کے بجٹ کی طرف لگایا جا سکتا ہے" کہا کہ "صحت کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے مختلف طریقوں کو استعمال کیا جائے گا"۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے ملک کی صحت عامہ پر جی ڈی پی کا 6 فیصد خرچ کرنے کا معیار ہے۔

پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے کے موقع پر، 31 مئی کو راولپنڈی میں منظم کردہ ایک عوامی تقریب میں شرکاء مارچ کر رہے ہیں۔ ]پاکستان ہارٹ ایسوسی ایشن[

پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے کے موقع پر، 31 مئی کو راولپنڈی میں منظم کردہ ایک عوامی تقریب میں شرکاء مارچ کر رہے ہیں۔ ]پاکستان ہارٹ ایسوسی ایشن[

کیانی نے کہا کہ حکومت صحت پر جی ڈی پی کا صرف 0.6 فیصد خرچ کر رہی ہے۔ مشاہدین نے ماضی میں متعدد بار ایسے ٹیکس کو نافذ کرنے کی تجویز دی تھی۔

این ایچ ایس کی وزارت میں صحت کے ڈائریکٹر جنرل اسد حفیظ نے کہا کہ قومی اسمبلی کو ایک مسودہ قانون ملے گا جس میں میٹھے مشروبات اور تمباکو پر گناہ ٹیکس لگانے کا حکم دیا جائے گا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری قانون سازی سے تمباکو استعمال کرنے والوں، ٹافیاں، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈ، کافی اور چینی پر ٹیکس لگانے کا راستہ ہموار ہو گا"۔

صحتِ عامہ کو مضبوط بنانا

حفیظ نے کہا کہ بہت سے ممالک، جہاں اس سے مماثل ٹیکس نافذ ہیں، بشمول امریکہ، برطانیہ ور تھائی لینڈ و دیگر، اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو ہسپتالوں کو بہتر بنانے اور ادویات کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گناہ ٹیکس سے "صحتِ عامہ کا نظام مضبوط ہو گا اور ایسے اجزاء کے استعمال میں کمی ہو گی جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ایسے صارفین پر ٹیکس لگانا مناسب ہے جو ملک کے طبی نظام پر ایک بوجھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ جانتے بوجھتے تمباکو نوشی اور دوسری برائیوں سے اپنی صحت کو تباہ کرتے ہیں، ان طبی وسائل کو برباد کرتے ہیں جنہیں دیگر افراد استعمال کر سکتے تھے۔

حفیظ نے پیشن گوئی کی کہ ٹیکس سے تمباکو کی بہت سی مصنوعات کے استعمال میں کمی آئے گی کیونکہ نوجوان ان مہنگی قیمتوں کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہر روز، تقریبا 1,500 پاکستانی نوجوان تمباکو نوشی کا آغاز کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یہ قانون ڈبلیو ایچ او کے تمباکو کے کنٹرول پر کنوینشن کے فریم ورک کے مطابق ہے جس میں تمباکو کے استعمال کو کنٹرول کرنے اور بیماریوں کو روکنے خصوصی طور پر کینسر، تپِ دق اور دمہ کو، کوشش کی گئی ہے"۔

ایک 'خوش آئند قدم'

پاکستان کے صحت عامہ کے پیشہ ورں اور ڈبلیو ایچ او کے تجزیہ کاروں نے اس ٹیکس کو خوش آمدید کہا ہے اور اسے صحت عامہ کی حفاظت کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔

پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے قائم مقام نمائندے ڈاکٹر نیما سید عابدی نے کہا کہ "یہ ایک خوش آئند قدم ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تقریبا 45 ممالک نے ایسے ٹیکس لگائے ہیں اور اکٹھا ہونے والی رقم کو صحتِ عامہ پر خرچ کیا گیا ہے جیسے کہ غذائیت،حفاظتی ٹیکے لگانے کے فروغ اور غیر متعدی اور قَلب و عِرُوقی بیماریوں کے انسداد کے لیے استعمال کیا ہے"۔

عابد نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او نے غیر صحت مندانہ مشروبات اور تمباکو پر ٹیکس لگانے اور حاصل ہونے والی رقم کو صحتِ عامہ پر استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ "یہ عوام کے لیے انتہائی مفید ہے کیونکہ اس سے تمباکو کے استعمال میں کمی ہو گی جس سے صحتِ عامہ اور صحت مندانہ طرزِ زندگی کو فروغ حاصل ہو گا۔ ہم اس قدم کی مکمل حمایت کرتے ہیں"۔

پاکستان چسٹ سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ارشد جاوید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے لیا جانے والے فیصلہ، اگر یہ قانون بن گیا، تو معاشرے کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گا۔

انہوں نے بیماریوں کے واقعات میں کمی کرنے اور طبی سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہم تمباکو کی مصنوعات کی فروخت اور بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں"۔

ڈان کی خبروں کے مطابق، پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ثناء اللہ گھمن کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہر سال 108,800 اموات ہوتی ہیں۔ گھمن نے این ایچ ایس کی وزارت کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات کہی۔

انہوں نے کہا کہ اگر تمباکو کے استعمال پر نظر نہ رکھی گئی تو یہ ملک کے طبی اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا اور اس کا بھاری جانی نقصان ہو گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500