دہشتگردی

کے پی پولیس نے چترال کے برف پوش پہاڑوں میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں کیں

محمد آحل

خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس کے افسران، 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقوں کے دوران نشانہ لے رہے ہیں۔ ]کے پی پولیس[

خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس کے افسران، 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقوں کے دوران نشانہ لے رہے ہیں۔ ]کے پی پولیس[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس نے جمعہ (30 نومبر) کو چترال ڈسٹرکٹ کے برف پوش پہاڑوں میں سطح سمندر سے بلندی پر انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں انجام دیں۔

چترال ڈسٹرکٹ کے پولیس چیف محمد فرقان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ مشقیں کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین محسود کے حکم پر انجام دی گئی ہیں اور ان کا مقصد علاقے کا دورہ کرنے والے غیر ملکیوں اور سیاحوں کی حفاطت کرنا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ مشقیں 9,000 فٹ سے زیادہ کی بلندی پر شغور وادی کے پہاڑوں میں انجام دی گئیں۔

فرقان نے کہا کہ "اس کا مقصد پولیس فورس کو ہر طرح کے حالات میں لڑنے کے قابل بنانا اور یہ دکھانا تھا کہ ملک کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں"۔

کے پی پولیس کے افسران 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی تربیت میں حصہ لے رہے ہیں۔ ]کے پی پولیس[

کے پی پولیس کے افسران 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی تربیت میں حصہ لے رہے ہیں۔ ]کے پی پولیس[

کے پی پولیس کا ایک خصوصی اسکواڈ 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک مشق میں حصہ لے رہا ہے۔ ]کے پی پولیس[

کے پی پولیس کا ایک خصوصی اسکواڈ 30 نومبر کو چترال ڈسٹرکٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک مشق میں حصہ لے رہا ہے۔ ]کے پی پولیس[

عسکریت پسندوں پر برتری

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ فوج نے سوات ڈسٹرکٹ میں مالاکنڈ کے علاقے، قبائلی پٹی میں بہت سے علاقوں اور گلگت-بلتستان میں دہشت گردی سے متعلقہ خطرات کا مقابلہ کیا ہے۔

شاہ کے مطابق، اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی پولیس انسدادِ دہشت گردی کی ذمہ داریاں سنبھال لے۔

انہوں نے کہا کہ "سطح سمندر سے اتنی بلندی پر پولیس کی تربیت اور مشقیں کرنا، یقینی طور پر حکمتِ عملی کے لحاظ سے ایک اچھا قدم ہے اور اس سے انہیں دہشت گردوں کے کسی بھی ایسے خطرے کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی جو حملہ کر کے فرار ہونے کی پالیسی پر بنیاد رکھتا ہو"۔

پشاور یونیورسٹی میں پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز کے شعبہ کے چیرمین ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے پاس خصوصی پولیس اسکواڈ ہے جو خصوصی حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور ایسی مشقوں سے ہماری پولیس فورس دہشت گردی سے جنگ کرنے اور غیر ملکیوں اور عام پاکستانی شہریوں کی حفاظت کرنے میں زیادہ طاقتور ہو جائے گی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے انتہائی سخت موسمی حالات میں تربیت سے پولیس فورس کو عسکریت پسندوں پر برتری حاصل کرنے میں مدد ملے گی جنہوں نے طویل عرصے سے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد بلند پہاڑوں کو چھپنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

غیر ملکیوں کی حوصلہ افزائی

پاکستان میں برازیل کے سفیر کلاڈیو راجہ گباگلیا لنس نے پشاور کے ایک دورے کے دوران پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ وہ گلگت- بلتستان کے شمالی علاقوں اور چترال کے علاقے میں جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں ساری دنیا کے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کریں جو کہ نہ صرف خوبصورت اور دل کش ہے بلکہ پرامن اور پرسکون بھی ہے"۔

لنس نے کہا کہ "اگرچہ ذرائع ابلاغ کی خبریں بعض اوقات غیر ملکیوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے سے روک دیتی ہیں مگر میں حفاظتی انتظامات سے بہت زیادہ مطمین ہوں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بالکل، میں کیسے کانسٹیبل کی ملازمت کے لیے درخواست دے سکتا ہوں؛ میں نے زرعی یونیورسٹی پشاور سے ایم ایس سی کر رکھا ہے؛ لیکن میرے پاس اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہےاور میرا خیال ہے کہ وہ ہی میرے لیے کافی ہے۔

جواب