جرم و انصاف

پاکستانیوں کی جانب سے کے پی پولیس اہلکار کے سفاکانہ اغواء، قتل کی مذمت

از جاوید خان

پولیس حکام 15 نومبر کو پشاور میں پشاورکے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس طاہر خان داوڑ کا تابوت لے جاتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

پولیس حکام 15 نومبر کو پشاور میں پشاورکے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس طاہر خان داوڑ کا تابوت لے جاتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- ملک بھر میں پاکستانیپشاور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس طاہر خان داوڑجنہیں جمعرات (15 نومبر) کے روز سپردِ خاک کیا گیا، کے اغواء اور قتل کی مذمت کر رہے ہیں۔

داوڑ کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد میں اغواء کر لیا گیا تھا، جہاں وہ ایک مختصر چھٹی پر گئے تھے۔

اس ہفتے کے شروع میں ہی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ وہ افغانستان میں مردہ پائے گئے ہیں۔

ان کی لاش دریافت کی گئی اور جمعرات کے روز طورخم پر پاکستانی حکام اور قبائلی عمائدین کے سپرد کر دی گئی اور پھر اسے بذریعہ ہوائی جہاز پشاور لایا گیا جہاں ان کی نمازِ جنازہ ملک سعد شہید پولیس لائنز میں ادا کی گئی۔

پاکستانی مسلمانوں نے 15 نومبر کو پشاور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس طاہر خان داوڑ کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جو اس ہفتے کے اوائل میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں مردہ پائے گئے تھے۔ [عبدالمجید / اے ایف پی]

پاکستانی مسلمانوں نے 15 نومبر کو پشاور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس طاہر خان داوڑ کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جو اس ہفتے کے اوائل میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں مردہ پائے گئے تھے۔ [عبدالمجید / اے ایف پی]

گورنر خیبر پختونخوا (کے پی) شاہ فرمان، وزیرِ اعلیٰ کے پی محمود خان، وفاقی وزیرِ داخلہ شہریار آفریدی اور کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین محسود، نے دیگر حکام کے ساتھ نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔

'ایک بہادر پولیس افسر'

کیپیٹل سٹی پولیس افسر پشاور قاضی جمیل الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم اپنے سب سے بہادر افسر سے محروم ہو گئے ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ کے پی پولیس کو پاکستان کے لیے داوڑ کی خدمات پر فخر ہے۔

سابق کے پی آئی جی پی ناصر خان درانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ان کی موت ایک بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک بہادر پولیس افسر تھے۔"

پشاور اور بنوں میں داوڑ کے افسر، سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سجاد خان نے کہا، "وہ غیر معمولی طور پر بہادر تھے اور اسی وجہ سے ان پر کئی بار گولیاں چلائی گئیں اور حملے کیے گئے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دو خودکش بم دھماکوں سے بچ نکلنے کے علاوہ، ایک بار بنوں میں ایک مقابلے میں انہیں گولی لگی تھی۔"

پشاور کے ایک مقامی صحافی قیصر خان نے کہا کہ داوڑ "جہاں کہیں بھی تعینات ہوتے تھے وہ خبروں کی زینت بنے رہتے تھے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ان کی موت کی خبر کسی بھی دیگر پولیس اہلکار کے برعکس بہت وسیع پیمانے پر کور کی گئی ہے۔"

خان نے کہا کہ داوڑ نے غریب قبائلیوں کی مدد کرنے اور اپنے علاقے کی ترقی کے لیے کام کرنے کی خاطر اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افسران کی ایک انجمن بنائی ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا، "وہ کئی غریب لوگوں کی تعلیم کی کفالت کر رہے تھے اور اگر ان کے ساتھی قبائلیوں کو کبھی بھی ضرورت ہوتی تو ہمیشہ بھاگے چلے جاتے تھے۔"

انصاف کے مطالبات

سیاستدانوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے داوڑ کے قتل کی مذمت کی ہے۔

ایک رکنِ قومی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پی کے صوبائی قائد امیر حیدر ہوتی نے ایک بیان میں کہا، "ہم نے بہادر طاہر داوڑ کے سفاکانہ قتل کی مذمت کرنے اور اس پر احتجاج کرنے کے لیے کے پی بھر میں ریلیوں کا اعلان کیا ہے۔"

ریلیاں ہفتہ (17 نومبر) کے روز نکالی جائیں گی۔

پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر محمد جاوید عباسی نے سینیٹ کو بتایا، "حکومت کو چاہیئے کہ پولیس افسر کو ان کی بہادری اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر تمغۂ جرأت سے نوازے اور تحقیقات کروائے کہ انہیں دارالحکومت سے کیسے اغواء کر لیا گیا اور بعد ازاں سرحد پار سے ان کی لاش کیسے ملی۔"

دیگر سینیٹرز نے بھی مطالبہ کیا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اور موجودہ حکومتواقعے کی ایک تفصیلی رپورٹ دیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ شہریار آفریدی نے جمعرات کے روز پشاور میں ایک پریس کانفرس میں بتایا کہ طاہر داوڑ کے قاتلوں کو جلد ہی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

انہوں نے کہا، "ہم وزیرِ اعظم کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔ قاتل جہاں کہیں بھی ہوں گے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا

جواب