دہشتگردی

کے پی پولیس کے مغوی پولیس اہلکار مبینہ طور پر افغانستان میں مردہ پائے گئے

از جاوید خان

اس فائل فوٹو میں، طاہر خان داور (بائیں) سابق کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد طاہر کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

اس فائل فوٹو میں، طاہر خان داور (بائیں) سابق کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد طاہر کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- سوموار (13 نومبر) کو مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایک اعلیٰ پولیس افسر جنہیں گزشتہ مہینے اسلام آباد سے اغواء کیا گیا تھا افغانستان میں مردہ پائے گئے ہیں۔

پشاور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) طاہر خان داور کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد میں اغواء کیا گیا تھا، جہاں وہ ایک مختصر چھٹی پر گئے ہوئے تھے۔

سیکیورٹی فورسز ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی تھیں، لیکن سوموار کے روز مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ انہیں افغانستان میں دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا ہے۔

کوئی سرکاری تبصرہ نہیں ہوا

پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ وہ خبروں کی تصدیق کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

طاہر خان داور، کے پی پولیس کے مبینہ طور پر مقتول افسر، اگست میں کیپیٹل سٹی پولیس افسر قاضی جمیل الرحمان اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جاوید اقبال سے ترقی کا پروانہ وصول کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

طاہر خان داور، کے پی پولیس کے مبینہ طور پر مقتول افسر، اگست میں کیپیٹل سٹی پولیس افسر قاضی جمیل الرحمان اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جاوید اقبال سے ترقی کا پروانہ وصول کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین محسود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ہم متعلقہ محکموں کے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔"

کے پی پولیس کے ترجمان، وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ہم مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔"

جیو نیوز کے مطابق وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے کہا، "یہ قومی سلامتی اور کسی کی زندگی کا معاملہ ہے اور اس پر کسی کھلے فورم پر بات نہیں کی جا سکتی۔"

تاہم، خیبر نیوز نے ٹویٹ کیا کہ افغان حکومت نے داور کا جسدِ خاکی طورخم سرحدی کراسنگ پر پاکستانی حکام کے سپرد کر دیا ہے اور یہ کہ وہ اسے پشاور لے کر آئیں گے۔

ایک دستی تحریر کردہ یادداشت

مبینہ طور پر ایک ہاتھ سے لکھی گئی پشتو یادداشت داور کی مسخ شدہ لاش سے ملی ہے۔

صحافیوں کے مطابق، یادداشت میں کہا گیا ہے کہ طاہر داور نے "ہمارے بہت سے آدمیوں کی گرفتاری اور ہلاکت کی قیمت چکائی ہے" اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی خراسان شاخ کا حوالہ دیا گیا ہے۔

تاہم، داعش نے رسمی طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

قسمت دھوکہ دے گئی

داور کئی دہشت گرد حملوں میں بال بال بچے تھے، جن میں کے پی کے ضلع بنوں میں دو خودکش حملے بھی شامل ہیں جس میں انہیں زخم آئے تھے۔

جو لوگ ان سے واقف ہیں ممکنہ خبروں سے لڑ رہے ہیں۔

وزیرستان قومی محاذ نامی سماجی تنظیم کے رہنماء، سمیع اللہ داور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر میں دکھائی گئی لاش داور کی ہے۔

کے پی رکنِ اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء سردار حسین بابک نے ایک بیان میں داور کے قتل کی تصدیق کی بجائے مذمت کرتے ہوئے کہا، "کے پی پولیس نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔"

شمالی وزیرستان سے ایک رکنِ قومی اسمبلی محسن داور نے ٹویٹ کیا، "یہ سن کر صدمے میں ہوں کہ مغوی ایس پی طاہر کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت اسی پرانے 'اچھے' اور 'برے' طالبان ڈرامے میں کرنا اب مزید کارگر نہیں ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "ہم جوابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500