جرم و انصاف

خیبر پختونخوا پولیس کے نظام کو قبائلی اضلاع تک وسیع کرے گا

از جاوید خان

پشاور، خیبر پختونخوا (کے پی) میں ایک پولیس اہلکار 3 نومبر کو رنگ روڈ پر پہرہ دیتے ہوئے۔ کے پی جلد ہی اپنے محکمۂ پولیس کو قبائلی علاقوں میں تعینات کرے گا جو حال ہی میں کے پی کا حصہ بننے کے لیے اس کے ساتھ ضم ہوئے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور، خیبر پختونخوا (کے پی) میں ایک پولیس اہلکار 3 نومبر کو رنگ روڈ پر پہرہ دیتے ہوئے۔ کے پی جلد ہی اپنے محکمۂ پولیس کو قبائلی علاقوں میں تعینات کرے گا جو حال ہی میں کے پی کا حصہ بننے کے لیے اس کے ساتھ ضم ہوئے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- خیبر پختونخوا (کے پی) باقاعدہ سول پولیس کو ان قبائلی اضلاع تک وسیع کرنے کے لیے تیار ہے جن کا حال ہی میں انضمام ہوا ہے اور صوبے کا حصہ بن گئے ہیں۔

فی الحال، خاصہ دار اور لیویز کے محکمے قبائلی اضلاع میں حفاظت کرنے اور قانون کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہیں۔

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین خان محسود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سابقہ قبائلی علاقہ جات میں پولیس کے جانے سے قبل ہم نے ان کے متعلقہ علاقوں تک رسائی کے لیے ٹیمیں تیار کرنے کا 90 فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پولیس دفاتر، پولیس تھانے اور بیرونی چوکیاں قائم کرنے، اور قبائلی پٹی میں تعینات ہونے والے افسران کی تربیت کے لیے فوج اور فرنٹیئر کور کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

محسود نے وضاحت کی کہ کے پی انسدادِ دہشت گردی کا ایک بہتر ونگ سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں کام کرے گا، جس نےکئی برسوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگلڑی ہے۔

پولیس کے مطابق،سابقہ قبائلی ایجنسیوںمیں پچانوے پولیس تھانے، 130 چوکیاں اور 13 پولیس لائنز قائم کی جائیں گی۔

محسود نے کہا، "ہم قبائلی اضلاع میں پولیس کے نظام کے لیے تقریباً 45،000 افسران پر مشتمل عملہ رکھیں گے،" انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے ان اضلاع کی سول انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ وہاں خدمات انجام دے رہے تمام خاصہ دار اور لیویز محکمے کے ملازمین کی تفصیلات فراہم کریں، تاکہ جو اہلیت رکھتے ہیں اوہ تربیت اور دیگر تکلفات کو مکمل کرنے کے بعد پولیس افسران بن سکتے ہیں۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "وزیرِ اعظم [عمران خان] اور وفاقی حکام ضم ہونے والے اضلاع میں باقاعدہ پولیس متعارف کروانے میں مخلص ہیں۔"

انہوں نے دلیل دی کہ سابقہ فاٹا کے علاقوں میں محکمۂ پولیس متعارف کروانے کے لیے کے پی پولیس کو مزید اہلکاروں، بشمول اعلیٰ افسران، کی ضرورت ہو گی، انہوں نے مزید کہا کہ اہلکاروں کو گاڑیاں، اسلحہ اور دیگر سامان چاہیئے ہو گا۔

قبائلی مکینوں سے مشاورت

کچھ قبائلی مکینوں، جنہوں نے اس خوف سے پولیس اصلاحات کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا کہ قانون کے نفاذ کے موجودہ اہلکار اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے، کا حوالہ دیتے ہوئے محسود نے کہا کہ حکام یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ علاقے میں قانون کے نفاذ کے شعبوں میں کوئی بھی فرد اپنی ملازمت سے محروم نہ ہو۔

قبائلی پٹی کے لیے منصوبہ بندی کردہ تقریباً 45،000 پولیس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "ہم ان علاقوں سے 22،000 پولیس افسران کو بھرتی کریں گے۔"

دریں اثناء، پولیس افسران نے قبائلی علاقوں میں ایسے افراد کے ساتھ کئی جرگے کیے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں مکمل طور پر باقاعدہ عدالتوں کے روایتی قبائلی جرگے کے نظام کی جگہ لینے کی بجائے وہی نظام جاری رہے۔

محسود نے خود شمالی اور جنوبی وزیرستان کے عمائدین کے ساتھ دو جرگوں کی صدارت کی، جبکہ دیگر پولیس افسران نے دیگر قبائل کے عمائدین کے ساتھ جرگے منعقد کیے۔

ضلع لوئر دیر کے ضلعی پولیس افسر، عارف شہباز وزیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم نے وسط اکتوبر میں [ضلع] باجوڑ کے عمائدین کے ساتھ ایک جرگہ کیا تھا۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برسوں کی نظر اندازی اور دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد قبائلی علاقوں میں ان کے اہم شعبوں کی ترقی کے لیے وہاں پیسے کے نفوذ کی ضرورت پڑنے والی ہے۔

سابق سینیٹر اور پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے صدر نشین، افراسیاب خٹک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ قبائلی اضلاع کے لیے وفاقی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ "وہ باقی ماندہ ملک کے برابر آ سکیں۔"

قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا

احتجاجی مظاہروں کے باوجود، قبائلی افراد باقاعدہ عدالتوں اور پولیس جو انضمام کے ساتھ آتے ہیں کے متعارف کروائے جانے کے منتظر ہیں۔

مہمند قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے 40 کے پیٹے میں ایک استاد رحمان اللہ جن یہی ایک نام معلوم ہے نے کہا، "پورے ملک میں ایک ہی نظام ہونا لازمی ہے۔"

رحمان اللہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ نو آبادیاتی زمانے میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) نے فاٹا کو گورنر کے پی کی جانب سے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹوں کی حکمرانی میں دے دیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی عوام کے پاس پولیٹیکل ایجنٹوں تک رسائی نہیں تھی اور وہ ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے تھے۔

ایف سی آر کا نفاذ 19 ویں صدی کے اواخر میں ہوا تھا اور یہ مقامی قبائلیوں کی روزمرہ زندگیوں کا ایک ناخوشگوار حصہ تھا جو سنہ 2018 میں کے پی اور فاٹا کے انضمام کے بعد کالعدم ہو گیا۔

رحمان اللہ نے کہا، "ایک باقاعدہ پولیس، نیز عدالتی نظام ۔۔۔ حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ۔۔۔ انصاف کو یقینی بنائے گا۔"

کے پی پولیس کے ایک ترجمان، وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کے میں مصروفِ عملتنازعات کے حل کی کونسلیںمقامی روایات اور ثقافت کے مطابق ان علاقوں میں قائم کی جائیں گی جو جرگہ کے نظام سے مشابہ ہوں گی۔ [قبائلی علاقہ جات میں] زیادہ تر مسائل ان کونسلوں کے ذریعے حل کیے جائیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ تمام ریجنل پولیس افسران (آر پی اوز) کو احکامات دیئے گئے ہیں کہ وہ قبائلی علاقہ جات میں پولیس کا ایسا نظام متعارف کروانے کے لیے تقاضوں کا تخمینہ لگائیں جو ان سے قریب تر ہو۔

احمد نے کہا، "مثال کے طور پر، آر پی او مالاکنڈ کو باجوڑ کے لیے مرکزی شخصیت بنا دیا گیا ہے۔ ضلع خیبر کے لیے کیپیٹل سٹی پولیس افسر مرکزی شخصیت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہت اچھےکے پی کے پولیس

جواب

محترم جناب۔ ایک چیز کی جانب میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ قبائلی علاقہ جات گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی زد میں ہیں اور ہم طلبا نوکری کے امتحانات میں حاضر ہونے سے قاصر ہیں، کیونکہ ہمیں بجلی کی عدم دستیابی، انٹرنیٹ، مالی مسائل کا سامنا ہے جس سے ہماری عمر کی حد گزر جاتی ہے۔ لہذا جناب میں تجویز دینا چاہتا ہوں کہ جب بھی آپ لوگ پولیس بھرتی کا اعلان کریں برائے مہربانی جنگ کے متاثرین کو عمر کی حد میں کم ازکم 35 سے 38 سال کی خصوصی رعایت کی اجازت ہونی چاہیئے

جواب

Fata ma police nizam bhut zarori hy. Basharte ye k fata k levies avr khasadar force ko police ma zam kiya jaye. Agar levies avr khasadar force ko khatam karny ki koshash ki belkhasos khasadar force ko. Tho ye bhut nuksandy hoga.

جواب