سلامتی

'بانیٔ طالبان' مولانا سمیع الحق راولپنڈی میں قتل

از جاوید خان

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ، مولانا سمیع الحق کو ایک نامعلوم تاریخ کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ انہیں 2 نومبر کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ [فائل]

جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ، مولانا سمیع الحق کو ایک نامعلوم تاریخ کی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ انہیں 2 نومبر کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ [فائل]

راولپنڈی -- اعلیٰ پائے کے پاکستانی مذہبی رہنماء اور اکوڑہ خٹک میں ایک دینی مدرسےدارالعلوم حقانیہکے سربراہ، مولانا سمیع الحق کو مبینہ طور پر جمعہ (2 نومبر) کے روز راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔

"مولانا سمیع الحقپر چاقو سے حملہ کیا گیا جو جان لیوا ثابت ہوا،" مولانا سمیع الحق کے بیٹے، حمید الحق، جو سابق رکنِ قومی اسمبلی رہے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ جب ان کے اہلِ خانہ گھر پہنچے تو ان کے والد خون میں لت پت پڑے تھے۔

اہلِ خانہ سمیع الحق کو علاج کی غرض سے راولپنڈی لائے تھے اور جب واقعہ پیش آیا تو وہ اپنے گھر اکوڑہ خٹک واپس جانے والے تھے۔

سمیع الحق، جو "بانیٔ طالبان" کے طور پر معروف تھے، اپنے سیاسی دھڑے، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ تھے، اور خیبرپختونخوا (کے پی) کے ضلع نوشہرہ میں متنازعہ مدرسہ حقانیہ کے قائد تھے۔

یہ مدرسہ ان کے والد نے قائم کیا تھا اور اس میں پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔ اس کے چند سابق طلباء اور سمیع الحق کے ذاتی شاگردوں میں طالبان کے اعلیٰ قائدین شامل تھے۔

سماء ڈیجیٹل کے مدیر، افتخار فردوس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سمیع الحق افغانستان میں امن کے لیے جنگجو طالبان گروہوں کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کروانے میں شامل تھے اور انہوں نے افغان سفیر [پاکستان میں سفیر عمر زخیلوال] اور دیگر متعلقہ افراد سے ملاقاتیں کی تھیں۔"

پاکستان کے بڑے قائدین کی جانب سے مذمتیں اور تحقیقات کے مطالبات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔

جیو ٹی وی کے مطابق، وزیرِ اعظم عمران خان نے فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

80 سالہ سمیع الحق نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دفاعِ پاکستان تحریک کی سربراہی بھی کی۔

سمیع الحق، جہاد اور عسکریت پسندی کے بارے میں اپنے متنازعہ خیالات اور افغان طالبان، جس میں گروہ کے ان راہنماؤں سے قریبی تعلقات بھی شامل ہیں جنہوں نے عام شہریوں پر حملوں کا حکم دیا تھا، کے لیے انکی پختہ حمایت کے باوجود، بلاشبہ بہت سے پاکستانیوں کے لیے ایک با اثر شخصیت تھے۔ پاکستان کے اندر اور ملک کے سیاسی طبقے میں وفادار عقیدت مندوں کا ایک گروہ بنا رکھا تھا جو مذہبی تعلیم کے باعث ان کا احترام کرتا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500