انتخابات

طالبان کی دروغ گوئی کے برعکس، جمہوریت اسلام سے متصادم نہیں ہے

سلیمان

طالبان کے اہلکار کو گروپ کے راہنما، ملا حبیب اللہ اخوندزادہ کی ایک تقریر کو جون میں ژابل صوبہ میں افغان شہریوں کے سامنے پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ]فائل[

طالبان کے اہلکار کو گروپ کے راہنما، ملا حبیب اللہ اخوندزادہ کی ایک تقریر کو جون میں ژابل صوبہ میں افغان شہریوں کے سامنے پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ]فائل[

کابل -- طالبان کا آنے والے انتخابات کے لیے نظر آنے والا خوف، نہ صرف ان کے اس جھوٹے دعوی کی تردید کرتا ہے کہ انہیں افغانستان میں عوام کی حمایت حاصل ہے بلکہ عسکریت پسندوں کی طرف سے جان بوجھ کر اسلام اور اس کے جہوریت کے ساتھ تعلق کے بارے میں غلط بیانی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

گزشتہ ہفتے جاری کیے جانے والے ایک دھمکی آمیز بیان میں، طالبان نے افغان عوام کو متنبہ کیا کہ وہ 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہ لیں اور اپنے لڑاکوں کو حکم دیا کہ وہ جمہوری عمل کی راہ میں روڑے اٹکائیں اور ان لوگوں کو نشانہ بنائیں جو اسے کامیاب بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اس بیان میں طالبان نے اس خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے جو وہ خود کو باضابطہ طور پر دیتے ہیں، کہا کہ "اسلامی امارت افغانستان کا خیال ہے کہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات، انتخابات کے ایسے عمل کو، منطقی یا مذہبی دونوں نکتہ نظر سے ہونے کے اجازت نہیں دیتے"۔

عسکریت پسندوں نے افغان شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں اور انہیں مسترد کر دیں۔

آنے والے پارلیمانی انتخابات اور ڈسٹرکٹ کونسل کے انتخابات کے لیے خود کو رجسٹر کروانے کے لیے افغان مرد، 5 جولائی کو ننگرہار صوبہ میں جلال آباد کے مضافات میں واقع بحسود ڈسٹرکٹ میں قطار بنائے ہوئے ہیں۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

آنے والے پارلیمانی انتخابات اور ڈسٹرکٹ کونسل کے انتخابات کے لیے خود کو رجسٹر کروانے کے لیے افغان مرد، 5 جولائی کو ننگرہار صوبہ میں جلال آباد کے مضافات میں واقع بحسود ڈسٹرکٹ میں قطار بنائے ہوئے ہیں۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

مسلسل موجود غلط تصورات

طالبان کی طرف سے انتخابات کو مسترد کیا جانا اس غلط تصور سے جڑ پکڑے ہوئے ہے اور جسے عسکریت پسند قائم رکھنا چاہتے ہیں -- کہ جمہوریت اسلام اور ریاست کے بارے میں اسلام کے تصور کے مخالف ہے اور اسے افغانستان پر مغربی قوتوں کی طرف سے زبردستی عائد کیا گیا ہے۔

طالبان کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے، افغانستان کے مذہبی علماء نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں ملک کا آئین جو کہ اسلامی اصولوں پر بنایا گیا ہے، نے افغان شہریوں کو وہ بنیاد فراہم کر دی ہے جس پر وہ جمہوری عمل کے ذریعے اپنے راہنماؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی عالم سلیم حسنی نے کہا کہ "انتخابات اور جمہوریت انسانی معاشرے کے جدید تصورات میں سے ہیں مگر وہ کسی بھی صورت میں اسلام سے تضاد نہیں رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس اسلام کی ابتدائی تاریخ سے بہت سے مثالیں موجود ہیں جو موجودہ جمہوریت اور انتخابی نظام سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ان مماثلتوں میں وہ طریقہ کار بھی شامل ہے جس کے تحت اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمان خلفاء اور حکمرانوں کا انتخاب کیا گیا ہے"۔

"اس وقت بھی، مسلمان خلفاء اور حکمرانوں -- جو آج کے دور کے صدر سے مماثل ہیں -- کو براہ راست ووٹ (اِستصوابِ رائے) اور لوگوں کی طرف سے براہ راست بیعت کے تحت ہی منتحب کیا جاتا تھا"۔

حسنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "انتخاب جمہوریت کے اجزاء میں سے ایک ہے۔ اسلام کی تاریخ میں انتخابات کی بنیاد موجود ہے اور انتخابات کو منعقد کروائے جانے کے خلاف کوئی مذہبی ممانعت موجود نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اسلام میں حکومت کے کاموں کی نگرانی کے موضوع کو اٹھایا گیا ہے اور اس پر بات کی گئی ہے، اور قرآن میں سماجی نگرانی کو ایک حق -- بلکہ ایک ذمہ داری کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے"۔

حسنی نے کہا کہ "تاہم یہ افراد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کرے۔ اس لیے، انتخابات کو منعقد کیا جانا لازمی ہے تاکہ لوگ فیصلہ کر سکیں اور پارلیمنٹ میں اپنے نمائںدوں کا انتخاب جمہوری عمل سے کر سکیں جو حکومت کے کاموں کی نگرانی کرنے کا کام کریں"۔

حسنی نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ "اسلامی ثقافت میں، ایک تصور ہے جو "سماجی ذمہ داری کا احساس" کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی منزل اور مستقبل کا لازمی طور پر ذمہ دار محسوس کرنا چاہیے۔ اس لیے، انتخابات میں حصہ لینا ہر مسلمان کا حق اور سماجی ذمہ داری ہے"۔

جمہوریت سے خوفزدہ ہونا

افغانستان کے تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے راہنماؤں کا خیال ہے کہ جمہوریت اسلام سے مطابقت رکھتی ہے اور طالبان جان بوجھ کر اپنے مقاصد کے لیے اسلام کی غلط تشریح پیش کر رہے ہیں۔

کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر، داؤد رواش نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہمارے ملک کے آئین کے مطابق، انتخابات کو منعقد کرنا اور منتخب ہونا، افغانستان کے ہر شہری کا حق ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "صدور، اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ میں عوام کے تمام نمائںدے، لوگ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے، لوگ اپنی حکومت اور راہنما بنا سکتے ہیں"۔

رواش نے کہا کہ "جمہوریت کا مطلب لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کے لیے ہے۔ اس لیے یہ ہم پر لازمی ہے کہ ہم انتخابات میں شرکت کریں تاکہ موجودہ جمہوری نظام کو قائم رکھا جا سکے اور طالبان کے نظامِ حکومت کو مسترد کیا جائے اور گزشتہ 17 سال کے اندر حاصل ہونے والی کامیابیوں کو محفوظ کیا جا سکے"۔

افغان سول سوسائٹی فورم کے ڈائریکٹر، عزیز رافیع نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "انتخابات کے بارے میں طالبان کی رائے ان کی کمزوری کی عکاسی کرتی ہے اور یہ اس بات کا مظاہرہ کرتی ہے کہ وہ سول اور جمہوری عمل کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ وہ جس وجہ سے جدید اور مقبول نظام کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے نظام طالبان کے قانونی جواز کے بارے میں سوال کرتے ہیں"۔

رافیع نے کہا کہ "موجودہ دور میں، انتخابات ایسا واحد طریقہ ہے جس سے لوگ اپنے راہناؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں اور یہ انتخابات کے ان طریقوں سے مطابقت رکھتا ہے جن کے مطابق اسلام کے قیام کے دور میں استعمال کیے گئے تھے جب لوگوں نے حکمرانوں کو براہ راست ووٹ اور بیعت کے اعلان سے منتخب کیا تھا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "انتخابی عمل کو روکنے کے لیے اپنے منصوبوں کا اعلان کرنے سے، طالبان ایک ایسے قومی عمل کو روکنا چاہتے ہیں جس کا مطالبہ تمام افغان شہریوں نے کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "لوگ ووٹ ڈالنے میں شرکت کرنے سے اپنی حکومت اور پارلیمنٹ کو قانونی جواز فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، طالبان اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ جمہوریت اور انتخابات افغانستان میں ایک معمول کا عمل بن جائیں گے"۔

رافیع نے زور دیا کہ "اصول میں، جمہوریت اور انتخابات اسلام سے متصادم نہیں ہیں۔ طالبان سیاسی میدان میں عوام کی طرف سے بڑے پیمانے پر شرکت سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ملک کے شہری جمہوری عمل کے ذریعے اپنی منزل کا انتخاب کریں"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار شیخ منیر نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "جمہوریت اور انتخابات سے لوگوں کی سیاسی طاقت میں شرکت کا اظہار ہوتا ہے جو کہ اب دنیا کے تمام ممالک میں قابلِ قبول ہے"۔

"خوش قسمتی سے، ہمارا آئین -- جو کہ اسلامی اصولوں پر بنیاد رکھتا ہے -- افغان شہریوں کو اپنے صدور اور اراکینِ پارلیمنٹ کو انتخابات کے ذریعے منتخب کرنے کا حق دیتا ہے جو کہ جمہوریت کا ایک انتہائی اہم ستون ہے"۔

منیر نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ "جمہوریت اور انتخابات سیاسی نظاموں کے صادق اور قانونی ہونے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ لوگ ایک قانونی حکومت بنانے میں اپنے حقوق کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابات اور جمہوریت کا واحد متبادل آمرانہ، دہشت گردانہ حکومتوں کی صورت میں نکلے گا اور انتخابات وہ واحد راستہ ہیں جو ملک کو ظلم اور انتشار سے بچا سکتا ہے"۔

آزادی کا ایک دشمن

ولسی جرگہ (پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں) کے ایک رکن محمد فرہاد صدیقی، جن کا تعلق کابل کے صوبہ سے ہے، نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان کے پاس حکومت کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ان کے عقائد جمہوری عمل سے متضاد ہیں۔ یہ گروہ آمریت اور ظلم سے طاقت میں آنا چاہتا ہے"۔

صدیقی نے کہا کہ "17 سال سے افغانستان کے لوگ امن کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر طالبان انتخابات کی بجائے جنگ، تشدد اور قتلِ عام کے ذریعے لوگوں پر اپنی آمرانہ اور مُطلق النعان حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں"۔

کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے ایک طالب علم محمد وارث نے صدیقی کے خیالات سے اتفاق کیا۔

وارث نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان آزادی، جمہوریت اور انتخابات کے دشمن ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ووٹ دینا میرا سماجی اور سیاسی حق ہے۔ میں انتخابات میں حصہ لوں گا اور ووٹ دوں گا تاکہ میرے ملک میں جمہوریت کو حقیقت مل سکے۔ میں طالبان کو کبھی بھی یہ اجازت نہیں دوں گا کہ وہ مجھے میرے سول اور جمہوری حقوق سے محروم رکھیں جو مجھے اسلام اور افغانستان کے آئین، دونوں نے دیے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "انتخابات میں شرکت بھی ایک اسلامی فریضہ ہے"۔

کابل سے تعلق رکھنے والے عسکری معاملات کے تجزیہ نگار جنرل اسکندر اصغری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "لوگوں کے نکتہ نظر سے، طالبان ایک ناپسندیدہ گروہ ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایک قانونی، سیاسی اور مذہبی نکتہ نظر سے، طالبان ایک غیر قانونی، ناکام گروہ ہیں جس کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں۔ وہ جب بھی افغانستان میں حکومت کرتے ہیں، وہ اپنی بندوقوں سے حکومت کرتے ہیں نہ کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے ووٹ سے خوفزدہ ہیں"۔

"اگر انتخابات کو منعقد کیا گیا تو طالبان مزید غیر اہم ہو جائیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 5

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

طالبان . جمھوریت سے حوفزدہ نہیں بلکے مغرب اور وہ لوگ جو دنیا میں فساد کرتے ہیں اسلام سے اور اسلامی قوانین سے حوفزدہ ہے کیونکہ . اسلام میں کیسی . امیر کی کنجایش نہیں مگر پرہیزگار . جمھوریت کا ہر اصول اسلام کی متضاد ہے \nمثلًا \nمرد عوورت برابر \nفحاشہ اور عالم برابر \nبد اور اچھا برابر \nمنافق کافر اور مسلمان برابر \nاسلام میں قانون ساز صرف اللہ ہے جب کے جمھوریت میں اصل قانون ساز پالیمان ہے جو کہ شرک ہے \nقران کو کسی منظوری کا محتاج سمجنا کفر ہے \nجب کہ یہاں پارلیمان . نہ چاہے تو کوئی اسلامی سزا نہیں سود حلال ہے . چور کا ہاتھ کاٹنا \n آس طرح ہر شرط . جمھوریت کا اسلام کیحلاف ہے . اور اللہ فرماتا ہے \nجو بھی اسی اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ احتیار کرے وہ ناقابل قبول ہوگا اور وہ نقصان اٹھانے والو میں ہوگا قیامت کے دن . . سورہ عمران ایت 85

جواب

اس مضمون کے اندر اسلامی تاریخ کے آئینے میں جمہوریت اور انتخابات کے لئے بنیاد بیعت کو قرار دیا گیا ہے. ہائے افسوس کہ اس قدر گمراہ کن استدلال کیا جا رہا ہے. بیعت . خلیفہ کے مقرر ہونے کے بعد اس کی اطاعت کے وعدے کو کہا جاتا ہے جیسا کہ وزراء کے منتخب ہوجانے کے بعد حلف برداری کا عمل ہوتا ہے. جب کہ انتخابات کا ان تمام امور سے پہلے ہونا ظاھر ہے.

جواب

Jo jamhorit jamhorit krty hin Pak main akr dekh Lin ky jumhrit ny hamrah Kia hal Kia?? Jumhori leaders west say qraz lety hian phir ghaban krky wahi pysa wapis west ky banks main ly jaty hin aur ghareb awam sari Zindagi good chukaty guzar detty hin.. Kro jamhorit jamhorit sub say ziyyada Dubai main property inhi Afghan jamhorit pasndoo ny khardi hi pechly 10 salon min.is ky bad pakistanion ny ..aik aur bat Shia minority main hin Afghanistan main...

جواب

طالبان . جمھوریت سے حوفزدہ نہیں بلکے مغرب اور وہ لوگ جو دنیا میں فساد کرتے ہیں اسلام سے اور اسلامی قوانین سے حوفزدہ ہے کیونکہ . اسلام میں کیسی . امیر کی کنجایش نہیں مگر پرہیزگار . جمھوریت کا ہر اصول اسلام کی متضاد ہے مثلًا مرد عوورت برابر فحاشہ اور عالم برابر بد اور اچھا برابر منافق کافر اور مسلمان برابر اسلام میں قانون ساز صرف اللہ ہے جب کے جمھوریت میں اصل قانون ساز پالیمان ہے جو کہ شرک ہے قران کو کسی منظوری کا محتاج سمجنا کفر ہے جب کہ یہاں پارلیمان . نہ چاہے تو کوئی اسلامی سزا نہیں سود حلال ہے . چور کا ہاتھ کاٹنا آس طرح ہر شرط . جمھوریت کا اسلام کیحلاف ہے . اور اللہ فرماتا ہے جو بھی اسی اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ احتیار کرے وہ ناقابل قبول ہوگا اور وہ نقصان اٹھانے والو میں ہوگا قیامت کے دن . . سورہ عمران ایت 85

جواب

اسلام زندہ باد

جواب