سفارتکاری

پاکستان اپنی زمین پر ایران کی چالوں سے انتہائی چوکس

عبدل غنی کاکٹر

کوئٹہ میں 4 اکتوبر کو ایک نیوز کانفرنس میں، جب ایران کی طرف سے پاکستان میں جاری بھرتی کی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنردوست نے براہ راست جواب دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ کسی کو بھی ایسی مہمات میں شامل ہونے پر "مجبور نہیں کیا جا سکتا" جو کہ ایک واضح اعتراف ہے کہ پاکستانی شام میں ایرانی افواج کے ساتھ مل کر جنگ کر رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ -- ایران کی علاقائی نقل و حرکت پر چوکنا ہو جانے والے پاکستانی حکام اور مشاہدین، پاکستان کے اندر ایران کی انسٹیلیجنس سرگرمیوں سے پیدا ہو جانے والے بڑھتے ہوئے خطرے پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

گزشتہ دو تین سالوں سے، پاکستان میں ایران کے سفارت خانے اور کونسلیٹس میں تعینات ایران کے انٹیلیجنس کے حکام کو بہت سی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے، جس میں سے سب سے زیادہ پریشان کن پاکستانیوں کو ایرانی ملیشیا کے طور پر بھرتی کرنا ہے۔

پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنردوست نے کوئٹہ میں ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں ایسی سرگرمیوں میں اپنے ملک کے کردار کو تسلیم کیا۔

ہنردوست نے 4 اکتوبر کو کوئٹہ میں، پاکستان میں ایران کی طرف سے جاری بھرتی کی سرگرمیوں کے بارے میں بالواسطہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی شیعہ ایران کے راستے جنگ کے لیے شام "رضاکارانہ" طور پر جا رہے ہیں۔

ایک پاکستانی شخص جس نے شام میں زینبیون برگیڈ کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا، کو اگست میں قم، ایران میں دفنایا گیا۔ ]فائل[

ایک پاکستانی شخص جس نے شام میں زینبیون برگیڈ کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا، کو اگست میں قم، ایران میں دفنایا گیا۔ ]فائل[

ایران کی طرف سے پروپیگنڈا فلم "لورز سیٹنڈ ڈائنگ" جو پاکستانیوں کو زینبیون برگیڈ میں بھرتی کرنے کے لیے استعمال کی گئی، سے لی گی ایک تصویر دکھائی گئی ہے۔ ]فائل[

ایران کی طرف سے پروپیگنڈا فلم "لورز سیٹنڈ ڈائنگ" جو پاکستانیوں کو زینبیون برگیڈ میں بھرتی کرنے کے لیے استعمال کی گئی، سے لی گی ایک تصویر دکھائی گئی ہے۔ ]فائل[

دباؤ ڈالے جانے پر، انہوں نے براہ راست جواب دینے سے انکار کرنا جاری رکھا اور دعوی کیا کہ ایسی مہمات میں شامل ہونے کے لیے "کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا"، جو اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ پاکستانی شام میں ایرانی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

سفیر کے تبصرے کی ایک ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں.

واقعات کے بارے میں ان کا موقف ان شواہد کی تردید کرتا ہے کہ ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) پاکستان کے اندر شیعوں کو بہلا کر زینبیون برگیڈ میں بھرتی کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم چلا رہی ہے۔

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ آئی آر جی سی نے گزشتہ چھہ ماہ کے اندر پاکستان سے 1,600 سے زیادہ لڑاکوں کو بھرتی کیا ہے اور نوجوانوں کو اپنی صفوں میں بھرتی کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کیا ہے۔

گہری ہوتی ہوئی تشویش

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دفاع کے پاکستانی اہلکار احسان حبیب نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا معاملہ ہے کہ ایران نہ صرف یہاں پر دہشت گردی کو سپانسر کر رہا ہے بلکہ شام میں اپنے امن مخالف کردار کو کھلم کھلا جائز قرار دے رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران بنیادی طور پر علاقے میں ایک پیچیدہ کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی بدنامِ زمانہ آئی آر جی سی اپنے عسکری مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے متعلقہ حکام کے پاس پاکستان کی شیعہ برادری میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہے"۔

حبیب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ داخلہ ایران اور عراق سے واپس آنے والے زائرین کی کڑی نگرانی کر رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایران انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ایران اپنے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بات اب پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ ایران ہمارے تنازعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے حمایت یافتہ عناصر کو طَوائفُ المَلُوکی پھیلانے کے لیے ہمارے ملک میں کیسے دھکیلتا ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے دفاع کے سینئر تجزیہ نگار میجر (ریٹائرڈ) عمر فاروق نے کہا کہ پاکستان سرحدوں کو محفوظ بنائے بغیر اپنے علاقے میں ایران کے اثر و رسوخ کو کنٹرول نہیں کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکام کو پاکستان -ایران سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکورٹی کا ایک سخت اور مناسب طریقہ کار نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ موجودہ حکومت کہہ رہی ہے۔ میری رائے میں، پاکستان اور علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نپٹنے کے لیے پالیسی کا دوبارہ سے جائزہ لینے کا وقت آ گیا ہے"۔

فاروق نے کہا کہ "ہم یہ الزامات برداشت نہیں کر سکتے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بیرونِ ملک امن اور استحکام کو خراب کرنے میں ملوث ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی کی قیادت میں لڑنے والے پاکستانی شہری پاکستان کی قومی سیکورٹی پالیسی کی بہت منفی ساکھ بنا رہے ہیں۔

فاروق نے کہا کہ "ہمیں ہر ممکن طریقے سے پاکستانی شیعہ جنگجوؤں کی بھرتی کو روکنا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسے ملزمان جو ہمارے شہری تھے اور جو شام میں مارے گئے، کے خاندان بھی اس صورت حال کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ حکام کو ان کے بارے میں بھی تفتیش کرنی چاہیے اور انہیں سزا ملنی چاہیے"۔

گینگ تشدد کی حمایت

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان جاری مسائل کو حل کرنے کے لیے، پاکستان نے سفارتی ذرائع سے ایران سے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہمارے حکام پاکستان کے اندر غیر ملکی انٹیلیجنس کو مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ملک میں ایران کی سرگرمیوں کی قریبی نگرانی کر رہے ہیں"۔

اہلکار نے مزید بتایا کہ "بلوچستان پاکستان کے اہم اسٹریجک اور حساس علاقوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ ایران اور افغانستان کے ساتھ مسام دار سرحد سانجھا کرتا ہے۔ ایران اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس نے ماضی میں ایسے امن مخالف گروہوں اور عناصر کی حمایت کی جو زیادہ تر پاکستان میں دہشت گردی اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے"۔

اہلکار نے کہا کہ ایران کی انٹیلیجنس نے لیاری گینگ وار کے بہت سے اہم ملزمان کی شناخت کو چھپایا جس میں رحمان ڈکیت، بابا لاڈلا اور دیگر شامل ہیں اور انہیں محفوظ گزرگاہیں فراہم کیں۔

لیاری کراچی کا ایک علاقہ ہے کو گینگ وار اور دیگر جرائم کے لیے مشہور ہے۔

انہوں نے کہا کہ "حالیہ تفتیش میں، ہم نے ثابت کیا کہ لیاری گینگ وار کا ملزم غفار زکری جو 4 اکتوبر کو کراچی میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گیا تھا، اس سے پہلے ایران میں تھا اور کچھ ہفتے پہلے ہی پاکستان واپس آیا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ کچھ خبروں کے مطابق "ایران اپنے حمایت یافتہ پراکسی عناصر کو بہت بھاری مالی امداد فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کر سکے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے باعث، اپنے مستقبل کے کاموں کے لیے پاکستان میں ایک اچھی ساکھ بنانے کرنے کے لیے انتہائی توجہ سے کام کر رہا ہے -- پاکستان کی حمایت کے بغیر وہ اپنی معیشت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا نہیں کر سکتا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایک نہایت جانبدارانہ مکالہ ہے جس میں اس حقیقت کو ںذرانداز کر دیا گیا ہے کہ سعودی عرب ہی ہے جو 1,200 سے زائد مدرسوں کے لیے مالیات فراہم کر رہا تھا اور ہے، جو کہ پاکستان اور ہمارے علاقہ میں دہشتگردی کا منبع ہیں۔ اللہ ہمارے تمام علاقہ میں امن کا بول بالا کرے۔

جواب

بحرین کی خصوصی افواج میں 5,000 سے زائد پاکستانی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ماضی میں سینکڑوں جنگجوؤں نے افغانستان میں خدمات انجام دیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ مکالہ جانبدارانہ خبروں پر مبنی ہے اور اس کا دور تک حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم پاکستان میں فرقہ ورانہ مسائل کو ہوا دینے کو منطور نہیں کریں گے۔ پاکستان زندہ باد

جواب

وزیرِ اعظم کو چاہیئے کہ اپنے وزیر کو قابو کرے کہ وہ پاکستان کے خلاف بیان مت دیں اور ترقیاتی کام اور کاروائی پر مکمل توجہ دیں

جواب

پاکستان میں سعودی معاونت کے فتنہ سے متعلق کوئی خبر نظر نہیں آئی۔ جو ہمارے سپاہیوں اور بچوں کی جانوں کے ضیاء کا باعث ہے۔ یقیناً اس صفحے سے ریال بنائے جا رہے ہیں۔

جواب

ایران ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور ابھی بھی اس مد میں کام کر رہا ہے۔ ہماری حکومت کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

جواب

ہاں سعودی گزشتہ 2 صدی سے امّہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور پھر بھی ایران وہ واحد دشمن ہے جس کی ہم نشاندہی کر سکے ہیں۔ یہ کیسا مذاق ہے! مصنف واضح طور پر تعصب زدہ ہے اور وہ واضح طور پر متعدد معلوم حقائق کو مروڑ رہا ہے۔

جواب