تعلیم

پاکستانی حکام اسکولوں میں جسمانی سزا کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں

از جاوید خان

جامعہ بنوریہ العالمیہ -- ایک اسلامی تعلیمی ادارہ -- کا ایک دینی طالب علم 7 اپریل کو کراچی میں سالانہ امتحانات میں شریک ہے۔ [رضوان تبسم / اے ایف پی]

جامعہ بنوریہ العالمیہ -- ایک اسلامی تعلیمی ادارہ -- کا ایک دینی طالب علم 7 اپریل کو کراچی میں سالانہ امتحانات میں شریک ہے۔ [رضوان تبسم / اے ایف پی]

پشاور -- پاکستان کی نومنتخب حکومت نے اپنی نظریں جسمانی سزا پر پابندی کا اطلاق کرنے پر مرکوز کر لی ہیں، جو کہ پورے ملک میں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں وسیع طور پر قبول کردہ ایک روایت ہے۔

اساتذہ نظم و ضبط کو یقینی بنانے کمرہ ہائے جماعت میں طلبا کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اکثر سخت جسمانی سزا کا اطلاق کرتے ہیں۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے 5 ستمبر کو کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "وزیرِ اعظم عمران خان نے اسکولوں میں جسمانی سز پر پابندی لگانے [کی منظوری] دے دی ہے۔"

چودھری کے مطابق، وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں ایک نئی ٹاسک فورس نظامِ تعلیم کی تعمیرِ نو کرنے اور نصاب کے معیار کو یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ایک ویڈیو کا سکرین شاٹ جس میں پاکستان کے ایک سرکاری اسکول کے استاد کو طلبا کو جسمانی سزا دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [برڈی آفیشل]

ایک ویڈیو کا سکرین شاٹ جس میں پاکستان کے ایک سرکاری اسکول کے استاد کو طلبا کو جسمانی سزا دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [برڈی آفیشل]

اسکولوں میں جسمانی سزا پر سابقہ پابندیاںجو صوبائی حکومتوں اور اسمبلیوں کی جانب سے عائد کی گئی تھیں انہیں اطلاق کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔

فروری 2017 میں، سندھ صوبائی اسمبلی نے ایک بل پاس کیا تھا جس میں طلبا کو جسمانی سزا دینے اور کسی بھی قسم کے ذلت آمیز سلوک کرنے اوراساتذہ یا تعلیم دانوں کی جانب سے بدسلوکی کرنے، نیز ساتھی طلبا کی جانب سے ڈرانے دھمکانےپر پابندی لگائی گئی تھی، اور جنوری میں صوبہ پنجاب کے حکام نے صوبے میں تعلیمی اداروں کے اندر جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔

پشاور کے مقامی حقوقِ اطفال کے ایک کارکن، عمران تکھر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "صرف صوبہ سندھ نے تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی لگانے کے قانون کا اطلاق کیا ہے، جس پر صوبائی اور وفاقی دونوں سطحات پر عمل ہونا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 89، جو جسمانی سزا دینے پر صرف نرم سزاؤں کی اجازت دیتی، لازماً منسوخ ہونی چاہیئے، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی سزائیں "6 سال سزائے قید نیز 50،000 روپے [405 ڈالر] جرمانہ ہونی چاہیئیں جیسے کہ خیبرپختونخوا [کے پی] کے تحفظ و بہبودِ اطفال ایکٹ میں بیان کیا گیا ہے۔"

تکھر نے کہا کہ اسکولوں اور صوبائی محکمہ ہائے تعلیم کے لیے لازمی ہے کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے کمرۂ جماعت کے انتظام اور بچوں کے لیے دوستانہ اسکول کی تعلیم کے تصورات پر کام کریں۔

انہوں نے مزید کہا، "والدین اور اساتذہ کی ملاقاتوں میں باہمی مشورے کے ذریعے بچوں کو درپیش مسائل کی شناخت کی جانی چاہیئے۔"

طلبا کو بگاڑنا

جسمانی سزا ان بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے جن کی بناء پر کے پی اور ملک کے دیگر حصوں میں سینکڑوں ہزاروں بچے اسکول نہیں جا رہے۔

چند معاملات میں، سوشل میڈیا پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیوز ظاہر ہونے کے بعد، پولیس نے چترال، لاہور، پشاور اور دیگر شہروں میں اساتذہ کو گرفتار کیا ہے۔

پشاور کے نواح میں ایک آٹو ورکشاپ پر معاون، 22 سالہ کلیم خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میں نے چوتھی جماعت کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا تھا کیونکہ ہمارے اساتذہ کی جانب سے شرمناک سزائیں متعارف کروائی گئی تھیں۔"

انہوں نے کہا کہ ان کے والدین چاہتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھیں، مگر اساتذہ کی جانب سے بدسلوکی اور جسمانی سزا نے انہیں روک دیا۔

خان نے کہا، "وفاقی حکومت، بشمول محکمۂ تعلیم، لازماً یقینی بنائیں کہ کسی بچے کے ساتھ بدسلوکی یا اس کی بے عزتی نہ ہو، خصوصاً سرکاری اسکولوں میں، جہاں جسمانی سزا ایک عام روایت ہے۔"

طلبا کے لیے صورتحال کسی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ اسکول، کالج اور حتیٰ کہ مدارس بھی جسمانی سزا دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک مدرسے کے استاد، 28 سالہ سلیمان احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم طلبا کو سزا دینے یا ان کی اہانت کرنے پر یقین نہیں کرتے، بلکہ ہم نرمی سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ دین سیکھنا اور ساتھ ہی ساتھ جدید تعلیم حاصل کرنا جاری رکھیں۔"

انہوں نے کہا کہ مدارس نہیں چاہتے کہ بچے انہیں چھوڑ کر جائیں، اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ طلبا قرآن اور اسلامی تعلیمات سیکھنے آ رہے ہیں۔

'فولنگ' سے روکنا

جسمانی سزا کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں والدین نے اپنی نظریں "فولنگ" کی رسم پر بھی مرکوز کی ہیں، جو کہ کالج اور دیگر تعلیمی اداروں میں نو وارد طلبا کو دھمکانے اور ان کی تحقیر کرنے کے لیے ایک مقامی اصطلاح ہے۔

ستمبر میں، بہت سے والدین نے پولیس سے رابطہ کیا کہ ان بڑی جماعتوں کے طلبا کو پکڑا جائے جنہوں نے ان کے بچوں کو ڈرایا دھمکایا اور ان کی بے عزتی کی، ان کا کہنا ہے کہ اسے سے تعلیم کا نقصان ہوتا ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس افسر پشاور قاضی جمیل الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم نے تمام تعلیمی اداروں کے سربراہان کو چٹھیاں ارسال کی ہیں کہ وہ 'فولنگ' کے نام پر بڑی جماعتوں کے طلبا کی جانب سے کسی بھی طالب علم کے ساتھ کسی بھی بدتمیزی، بے عزتی، یا بدسلوکی پر نظر رکھیں کیونکہ بہت سے والدین نے پولیس سے اس روایت کو روکنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ جسمانی سزا کی طرح، 'فولنگ' ان بڑے عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے طلبا اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے سے کتراتے ہیں۔

خلیل الرحمان نے کہا، "خطوط والدین کی جانب سے اس وقت بھیجے گئے تھے جب اپنے ساتھی طلبا کے ہاتھوں بے عزت ہوتے اور جسمانی طور پر بدسلوکی کا نشانہ بنتے طلبا اور بچوں کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں اور اہلِ خانہ نے نوجوان طلبا کو ہراساں کرنے میں ملوث بچوں کے والدین کے خلاف مقدمات دائر کیے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500