نوجوان

حکومتِ کے پی معاشرہ کا تعمیری رکن بننے کے لیے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے

محمّد شکیل

مارچ میں پشاور میں اسلامیہ پبلک ہائی سکول کے باہر بچے دکھائے گئے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق، پاکستان کی 60 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے درمیان کے افراد پر مشتمل ہے۔ [محمّد شکیل]

مارچ میں پشاور میں اسلامیہ پبلک ہائی سکول کے باہر بچے دکھائے گئے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق، پاکستان کی 60 فیصد آبادی 15 سے 29 برس کے درمیان کے افراد پر مشتمل ہے۔ [محمّد شکیل]

پشاور – ایک کردار ادا کرنے والے شہری طبقہ کو فروغ دینے کے لیے حکومتِ خیبرپختونخوا (کے پی) کے اچھا شہری اقدام (جی سی آئی) کے آغاز کے چھ سے زائد ماہ گزرنے کے بعد معلمین اور مقامی عہدیدار مثبت نتائج دیکھ رہے ہیں۔

9 مارچ کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے آفیشل یوٹیوب چینل پر پوسٹ کی گئی پریس ریلیز کے مطابق، یہ اقدام تین اجزاء پر مشتمل ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پہلے حصّے میں جی سی آئی کا مقصد "بااخلاق، آگاہ اور کردار ادا کرنے والے شہری طبقہ کی تشکیل کو یقینی بنانا ہے، جس میں سکول کے بچوں کی اخلاقی تعلیم پر خصوصی توجہ ہو گی۔" یہ مرحلہ سکولوں میں اخلاقی امور اور شہری ذمہ داریوں سے متعلق تعلیم دیتے ہوئے سکول کے بچوں کو ذمہ دار شہری بننے کے قابل بنانے پر مرتکز ہو گا۔

دوسرا حصّہ اچھے شہریوں کی فوج (جی سی سی) تشکیل دے گا، جس میں کالج کے طالبِ علم خون عطیہ کرنے کے کیمپس اور ہسپتالوں سمیت فلاحی مراکز میں کام کرتے ہوئے ایک 21 روزہ کورس کریں گے۔

پی ٹی آئی کے اعلان میں وضاحت کی گئی کہ کالج کی سطح پر جی سی سی نیشنل کیڈٹ کورس کی جگہ لے گا۔

تیسرا حصّہ تمام صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرامز میں پوسٹ گریجوایٹس کے لیے انٹرنشپ کے مواقع دستیاب کرے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ طالبِ علموں کو "[فارغ التحصیل ہونے کے بعد] ملازمتیں تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے مخصوص شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔"

تبدیلی کے عوامل

ستمبر کے آخر میں کے پی کے ڈائریکٹر برائے امورِ نوجوانان اسفندیار خٹک نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "نوجوان اپنے عزم، آگے بڑھنے کی صلاحیت اور معاشرے پر اثرانداز ہونے کے زیادہ رجحان کی وجہ سے تبدیلی کے عوامل تصور کیے جاتے ہیں۔"

حالیہ مردم شماریمنکشف کرتی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا اندازً 60 فیصد 15 سے 29 برس کے درمیان کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تعداد زیادہ توجہ اور ان پر وسائل صرف کیے جانے کی متقاضی ہے، جس سے متعلق حکومتِ کے پی مکمل طور پر آگاہ ہے۔

برسوں قبل کے پی کی نوجوانوں کو عطائے اختیار کے لیے کاوشیں

خٹک نے کہا، "[2010 میں شروع ہونے والے ایک عمل، وفاقی اختیارات کی حکومت کی نچلی سطح پر] منتقلی کے بعد نوجوانوں کے لیے ایک نمایاں پالیسی کا آغاز کرتے ہوئے ۔۔۔ حکومتِ کے پی نے نوجوانوں کی معاشرتی، سیاسی اور معاشی معاونت کے لیے 1 بلین روپے (8.1 ملین ڈالر) کا ایک پیکیج دیا، جو نوجوان نسل کو اچھا شہری بنانے اور ایک بہتر معاشرے کے لیے ان کی توانائیاں استعمال کرنے کے ہمارے عزم کا ثبوت ہے۔"

انہوں نے کہا، "نوجوانوں کو آزادی دینے کے علاوہ، ہماری کاوشوں کا مقصد انہیں دہشتگردی، شدت پسندی اور منشیات کی برائیوں سے بچانا اور خودمختاری اور شخصی ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم ان نوجوانوں کو تکنیکی مہارتیں فراہم کرنے کے لیے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس عملی علم اور پیشہ ورانہ تجربہ کی کمی ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ حکومتِ کے پی اس مقصد کے لیے 500 ملین روپے (4 ملین ڈالر) مختص کر رہی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی "توقع ہے کہ ٹیکنیکل ٹریننگ نوجوانوں کے لیے 330 کاروباری میدان [بشمول بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈگری پروگرام] تشکیل دے گی، جس سے وہ خود روزگاری کے مواقع پیدا کر سکیں گے۔"

نسبتاً کم عمر طالبِ علموں کے لیے حکومتِ کے پی نے گزشتہ دسمبر ایک ٹیلنٹ سرچ، نیشنل یوتھ کارنیول کا انعقاد کیا، جس میں کے پی، بلوچستان، سندھ اور قبائلی علاقہ جات کے 120 سکولوں سے 15,000 بچوں نے شرکت کی۔

خٹک نے کہا، اس تقریب کے ذریعے حکومتِ کے پی کا مقصد "نوجوان نسل کی معاونت کرنا، انہیں اپنی شہری ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک کارآمد جزُ بنانا تھا"

نوجوانوں پر مرکوز پالیسیاں

کے پی برائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی کے ایک رکن انس تکریم کاکا خیل نے کہا، "جب بھی حکومت کوئی پالیسی تشکیل دینے لگے تو نوجوانوں سمیت معاشرے کے ہر ایک طبقے کو ۔۔۔ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "[آبادی میں] نوجوانوں کے تناسب اور ان کی تعداد کے پیشِ نظر پالیسی سازی میں نوجوانوں کی اہمیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی اچھے شہریوں میں تبدیلی معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔"

کاکاخیل نے کہا کہ جی سی آئی نوجوانوں کو ایک اچھے شہری کے طور پر عمل کرنے کی ان کی ذمہ داری سے متعلق آگاہی فراہم کرتی ہے۔ "اگر ہم یہ مقصد حاصل کرتے ہیں، تو معاشرے پر اس کے اثرات دوررس اور قابلِ ذکر ہوں گے۔"

پشاور کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں ایک لیکچرار صائمہ شیخ نے کہا کہ نوجوانوں کا فن اور ان کی استعدادنوجوان موافق حکمت ہائے عملیتشکیل دینے اور معاشرے میں ان کے تعمیری کردار کو ممکن بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا ہمارے غیر ہنرمند اور بے روزگار نوجوانوں کی تونائیوں کا [ایک بہتر] استعمال ہمارے معاشی-معاشرتی مسائل کے حل کے لیے مددگار ہوسکتا ہے۔

اچھے شہری پیدا کرنا

ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی میں قانون کے ایک طالبِ علم ماہر علی شاہ نے کہا کہ ایک معاشرے کی ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک وہ معاشرہ نوجوانوں کی اہمیت کا ادراک نہ کر لے اور ان کی صلاحیتوں کو کشید نہ کرے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "حکومت کا یہ اقدام [ممکنہ طور پر] معاشرتی ترقی کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی، تعلیم اور ہدایت میں معاشرہ کی پیش رفت کو یقینی بنائے گا۔"

گورنمنٹ ہائرسیکنڈری سکول پھندو روڈ، پشاور کے سابق پرنسپل اور لیکچرار اکبر آفریدی نے کہا کہ کے پی بھرکے سکولوں میں طالبِ علموں کی ذمہ داریوں سے متعلق انہیں آگاہ کرنے کے واحد مقصد سے مباحثوں، گفت و شنید اور اسمبلی لیکچرز سمیت جی سی آئی کے تحت مختلف سرگرمیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ طالبِ علموں کو اخلاقیات کے بنیادی قواعد ذہن نشین کرانا ایک بنیادی قدم ہے جو اچھا شہری بننے کے ان کے ادراک اور افکار کو ڈھالتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "جی سی آئی نوجوانوں کو ایک کارآمد شہری بننے کے لیے رہنمائی کرنے کے علاوہ ان میں شہری با ضمیری کا ایک شعور اجاگر کرنے میں مدد گرے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500