سفارتکاری

افغان، پاکستانی علماء کی طرف سے امن کانفرنس کی منصوبہ بندی، افغان طالبان کو پول کھل جانے کا خطرہ

اشفاق یوسف زئی

طالبان کے ارکان کو اگست میں عید الاضحی کا ایک کتابچہ پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو انہیں ان کی قیادت نے دیا تھا۔ طالبان کے راہنما حالیہ مہینوں میں اپنے ارکان اور افغان عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ اسلام کی طرف سے لڑ رہے ہیں، مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ]فائل[

طالبان کے ارکان کو اگست میں عید الاضحی کا ایک کتابچہ پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو انہیں ان کی قیادت نے دیا تھا۔ طالبان کے راہنما حالیہ مہینوں میں اپنے ارکان اور افغان عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ اسلام کی طرف سے لڑ رہے ہیں، مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ]فائل[

پشاور -- میدانِ جنگ میں بڑھتے ہوئے دباو اور افغانستان میں رائے عامہ کی حاصل شدہ حمایت میں ہوتی ہوئی کمی کا سامنا کرنے والے طالبان، نے عوام کی نظروں میں دوبارہ سے جواز پانے کے لی سازشی نظریات کو پھیلانا شروع کر دیا ہے۔

افغانستان کی اعلی امن کونسل (ایچ پی سی) کے ارکان اور مذہبی علماء پر مبنی ایک وفد نے گزشتہ ہفتے پاکستانی علماء اور حکام سے ملاقات کی تاکہ تجویز کردہ علماء کانفرنس کے لیے ایک ایجنڈا تیار کیا جا سکے۔

اس کانفرنس کو ماضی میں انڈونیشیاء اور سعودی عرب میں ہونے والی علماء کونسل کی ملاقاتوں پر تعمیر کیا جائے گا۔

یہ وفد جمعہ (28 ستمبر) کو اسلام آباد پہنچا اور پیر (یکم اکتوبر) کو افغانستان واپس گیا۔

افغان حکام اور علماء نے پاکستان کے مذہبی راہنما مولانا سمیع الحق سے 30 ستمبر کو دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، پاکستان میں ملاقات کی۔ ]دارالعلوم حقانیہ[

افغان حکام اور علماء نے پاکستان کے مذہبی راہنما مولانا سمیع الحق سے 30 ستمبر کو دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، پاکستان میں ملاقات کی۔ ]دارالعلوم حقانیہ[

افغان اعلی امن کونسل کا ایک وفد یکم اکتوبر کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے سربراہ، سراج الحق (بائیں سے تیسرے) کے ساتھ تصویر کھنچوا رہا ہے۔ ]جماعت اسلامی[

افغان اعلی امن کونسل کا ایک وفد یکم اکتوبر کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے سربراہ، سراج الحق (بائیں سے تیسرے) کے ساتھ تصویر کھنچوا رہا ہے۔ ]جماعت اسلامی[

ان مذاکرات کے ممکنہ نتائج سے خوف زدہ ہو کر طالبان نے ہفتہ کو ایک بیان جاری کیا جس میں شرکت کرنے والے علماء کو امریکی حکومت کے منصوبے کا ایک حصہ قرار دینے کے کوشش کی تاکہ اس گروہ کے قانونی جواز کو ختم کیا جا سکے۔

اس بیان نے طالبان کے خوف اور بے بسی کو آشکار کر دیا ہے اور یہ واضح طور پر جھوٹی معلومات سے بھرا ہوا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ "سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے پینٹاگون کے حکام کے لیے ایک ایکشن پلان بنایا ہے جنہوں نے افغانستان میں جاری جہاد کے خلاف علماء کو استعمال کرنے پر زور دیا، ان کے ذریعے جہاد کے خلاف ایک فتوی جاری کروایا، دھرنوں کے ذریعے جھوٹے امن کو فروغ دیا، امریکہ کی جنگی شکست سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے، ذرائع ابلاغ میں جھوٹے مذاکرات کی خبریں دیں"۔

سابقہ علماء کانفرنسوں میں امن کا مطالبہ

اس بیان میں اس سے پہلے انڈونیشیاء اور سعودی عرب میں ہونے والی پہلے کی کانفرنسوں کو "امریکی منصوبے" کی گزشتہ مثالیں قرار دیا گیا۔

شرکت کرنے والی جماعتوں کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان کے مطابق، مئی میں افغانستان، پاکستان اور انڈونیشیاء سے تعلق رکھنے والے علماء نے جکارتہ میں ملاقات کی اور طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے اشرف غنی کی پیشکش کو قبول کر لیں۔

غنی نے فروری میں ایک امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں طالبان کو ایک سیاسی جماعت بنتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ تاہم، طالبان نے بظاہر اس منصوبے کے مسترد کرتے ہوئے، 25 اپریل کو موسمِ بہار کی جنگ شروع کر دی۔

4 جون کو کابل میں، افغانستان کی علماء کونسل نے تقریبا 3,000 علماء کی ایک کانفرنس منعقد کی جس نے خودکش حملوں اور بم دھماکوں کو "حرام " قرار دیا۔

جولائی میں، 57 ممالک سے تعلق رکھنے والے 100 سے زیادہ مسلمان عالموں نے اپنی مشترکہ طاقت اور قرآن کی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں دیرپا امن کے لیے اپنی پوری حمایت کا اعلان کیا۔

افغانستان میں امن و سیکورٹی پر عالمی علماء کانفرنس کو سعودی حکومت اور اسلامی تعاون کی تنظیم نے سپانسر کیا تھا۔

علماء نے 11 جولائی کو ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ "ہم افغانستان کی حکومت اور طالبان تحریک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صلح بندی اور جنگ بندی کا اعلان کریں اور براہ راست افغان مذاکرات کے لیے ایک راستے کا تعین کریں"۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ "قرآن کے متن اور اس روایت کی بنیاد پر کہ اسلام امن اور رحم کا مذہب ہے اور یہ کہ ایمان والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا سلوک کرنا چاہیے، اور یہ کہ ان کا خون، املاک اور عزت نا قابل انتقال ہیں اور انہیں جارحیت سے بچایا جانا چاہیے، اس لیے ہم زور دیتے ہیں کہ بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے اور مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو ہلاک کرنے کے واقعات، ایسے کام ہیں جنہیں اللہ اور اس کے پیغمبر نے اس متن کے تحت منع کیا ہے جو مکمل طور پر واضح اور مروجہ ہے"۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ "افغان حکومت اور طالبان کی تحریک کے درمیان تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے قومی مذاکرات سب سے بہتر طریقہ ہیں"۔

تاہم، طالبان نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے بین الاقوامی طور پر قابلِ احترام شرکاء کی مذمت کرتے ہوئے انہیں صرف مہرے قرار دیا۔

طالبان نے بیان میں اس نام کو استعمال کرتے ہوئے جو وہ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں، کہا کہ "اسلامی خلافت ایک بار پھر افغانستان اور پاکستان کے سچے اور خودمختار علماء سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایسی ملاقاتوں سے گریز کریں تاکہ وہ امریکہ کی حکمتِ عملیوں اور ان کی انٹیلیجنس سروسز کی سازشوں کا شکار نہ بن جائیں"۔

مشاہدین نے گزشتہ کانفرنسوں میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے علماء کی بڑی تعداد اور بہت سے ممالک میں ان کے اثر و رسوخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے، اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے کہ یہ "سچے، خودمختار مذہبی علماء" کون ہیں جن کا طالبان نے حوالہ دیا ہے۔

امن کے لیے نقشہ

ایچ پی سی کے نائب صدر، عطا الرحمان سلیم نے پاکستان میں افغان وفد کی قیادت کی۔

ایچ پی سی کے ارکان نے دارالعلوم حقانیہ جو کہ اکوڑہ خٹک پاکستان میں قائم مدرسہ ہے، کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے سے 30 ستمبر کو ملاقات کی جہاں انہوں نے علاقائی امن کے بارے میں بات چیت کی۔ اس بات کا اعلان مدرسے نے کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زاخلوال، ایچ پی سی کے ارکان اور مذہبی علماء نے افغانستان کے تنازعہ کے خاتمے کے لیے مولانا سمیع کی حمایت چاہی۔

مدرسے کے ایک ترجمان یوسف شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وفد نے مولانا سمیع الحق سے درخواست کی کہ وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں۔ وفد نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اس معاملے میں ان کے فیصلے کو قبول کر لیں گے"۔

ایچ پی سی کے ترجمان احسان طاہری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ افغان وفد نے سراج الحق جو کہ پاکستان کی اسلامی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی (جے آئی) کے سرابرہ ہیں، سے اسلام آباد میں یکم اکتوبر کو ملاقات کی تاکہ علاقے میں دہشت گردی کا حل تلاش کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ "ان ملاقاتوں کا مرکز افغانستان کی صورتِ حال تھی۔ شرکاء نے دونوں اطراف کی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے اور افغانستان کے قومی مصالحتی جھنڈے تلے امن کے لیے ایک نقشہ تیار کرنے پر اتفاق کیا"۔

طالبان پر بڑھتا ہوا دباؤ

تجزیہ نگار ایک ایسے وقت پر جب پاکستان پر اس بات کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرت کی میز پر آنے پر مجبور کرے، علماء کانفرنس کے بارے میں کافی پرامید ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے ماہر، برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ افغانستان کے لوگوں نے دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور اس بات کا احساس بڑھ رہا ہے کہ امن حاصل کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دہشت گردی کے بارے میں ایک مذاکرات کردہ حل مذہبی علماء کے ذریعے ممکن ہے جنہیں تشدد کے کاموں میں ملوث گروہوں میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ افغانستان کی پیچیدہ صورت حال کو ختم کرنے میں مذہبی راہنماؤں کا کردار اہم ہے"۔

شاہ نے کہا کہ مولانا سمیع "طالبان کے حریف دھڑوں میں جانے جاتے ہیں اور وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں -- اس لیے امن کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ وہ جنگ کر کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں"۔

شاہ نے کہا کہ "یہ بات سب پر واضح ہے کہ جنگ سے صرف مصائب آتے ہیں، اس لیے افغانستان کی حکومت سیکورٹی، گڈ گورنس، انصاف، تعلیم اور صحت عامہ کو یقینی بنانے اور اپنے شہریوں کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے"۔

ایک قابلِ احترام مذاکرات کار

دارالعلوم کے ترجمان یوسف شاہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ سمیع کو عوام احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

شاہ کے مطابق، مولانا سمیع نے دورہ کرنے والے ایچ پی سی کے وفد کو بتایا کہ "افغانستان کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ بہت سے بین الاقوامی کھلاڑی اسے حل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں"۔

مولانا سمیع نے پاکستان فارورڈ کو فون پر بتایا کہ "ہم افغانستان میں اندرونی تشدد اور جارحانہ کاروائیوں کو ختم ہوتا ہوا دیکھنے کے انتہائی مشتاق ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے افغان علماء کی طالبان کے راہنماؤں کے ساتھ، غیر ملکی قوتوں یا دوسرے ممالک کی کسی شمولیت کے بغیر، ملاقات کی تجویز پیش کی ہے تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھ سکیں اور اعتماد کا ماحول پیدا کر سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان کے مسئلے کا حل افغانیوں کے درمیان اتحاد میں موجود ہے۔ ہمیں افغان طالبان کے حریف گروہوں کو اس بات پر تیار کرنا چاہیے کہ وہ اختلافات کو بھلا دیں اور نئے طریقے سے اپنی زندگیوں کو دوبارہ سے شروع کریں"۔

ایچ پی سی کے رکن اور مشرانو جرگہ (افغان پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا) کے چیرمین فصل حادی مسلیمیار نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ "مولانا سمیع الحق اور سراج الحق نے ایک پرامن افغانستان کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے"۔

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے ایک لیکچرار ثقیب اللہ خان نے کہا کہ مذہبی راہنما تنازعہ کو ختم کرنے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بہت سے طالبان راہنما مولانا سمیع الحق کے شاگرد رہے ہیں۔ وہ ان کا احترام کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی کے طالبان کے راہنماوں اور اس کے ساتھ ہی کچھ افغان عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں جنہیں مثبت طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 7

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

غیر ملکی افواج نے طالبان حکومت پر حملہ کیا اب ان کو نکل کر باقی ماندہ عوام اسی طرح اسلامی نظام کا نفاز کرے جو ملا عمر صاحب نے کیا تھا بس مسلہ حل ہوجائیگا

جواب

آداب ۔۔۔ امریکہ نے یہ سب گندگی پیدا کی ہے۔ اور امریکہ ہی یہ تمام اخراجات اٹھاتا ہے ۔۔ تاکہ یہ خود کو دنیا میں کامیاب ظاہر کر سکے۔۔ ایسا کرنے سے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ اچھا ہے۔۔ انہیں دن رات افغانوں کو قتل کرنے اور جرائم کرنے کی اجازت کس نے دی ہے؟۔۔ ہر جگہ اندھا دھند بمباری کی جا رہی ہے اور پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔ کسے، وہ کسے پوچھیں گے۔ والسلام

جواب

اڈمین آپ اور اس کانفرس کا جو علماء ھیں سب یھودو اور کافرو کا خصوصا امریکیو کا غلام ہیں،

جواب

جب تک امریکی فوجی ہیں مذکرات کامیاب نہیں ہونگے۔ اگر آخری فوجی چلا جائے تو مجھے بلاو میں مذاکرات کامیاب کروں گا۔ یہ بات ایک فریق کے لئے قابل قبول نہیں کہ ایک طرف سے دھشت گرد قرار دے کر روز حملہ کردوں اور دوسری طرف امن کی دعوت دوں۔

جواب

یہاں آپ لوگ صرف طالبان کے خلاف پوسٹ اور لکھ سکتے ہو حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں .جبکہ حقیقت یہ ہے افغان عوام اور افغان علماء کل بھی طالبان کے ساتھ تھے اور آج بھی ہیں آئیندہ بھی ان کے ساتھ رہیں گے..امن کا صرف ایم ہی راستہ ہے وہ ہے غیر ملکی افواج کا انخلاء اور جو آپ لوگ کبھی نہیں چاہتے.لہذا ہم بھی اب یہ چاہتے ہیں کہ غیرملکی افواج بھی یہیں رہیں اور طالبان بھی کمر کس کے ان پر حملے کرتی رہی جب تک دونوں میں سے کوئی بھی زندہ ہے تب تک .

جواب

یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ مکالہ امریکہ کی دوستی پر مبنی ہے۔ اگر طالبان نے سمیع الحق کے فتویٰ پر جہاد کا آغاز کیا ہے تو وہ اس کا خاتمہ بھی کر سکتا ہے۔ اگر شریعت اور فتویٰ کے مطابق تسلط کے خلاف جہاد کا آغاز کیا گیا تھا تو تسلط کا خاتمہ ہی اس بحران کا واحد حل ہے۔

جواب

جنگ ایک قوم کو تباہ کر دیتی ہے اور امن طاقت کے زور پر نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ مصالحت اچھی ہے۔ اگر جنگ کسی ملک کو تعمیر کر سکتی تو افغانستان دیگر ممالک سے بہتر ملک ہوتا۔ یہ کاوشیں جاری رہنی چاہیئں اور ایسے اجلاس دیگر ممالک میں بھی منعقد کیے جانے چاہیئں اور ان کے نتائج میڈیا پر شائع ہونے چاہیئں۔

جواب