حقوقِ نسواں

پاکستان کی خاتون پولیس اہلکاروں کی طرف سے خواتین کی خودمختاری کا پیغام

جاوید خان

خواتین پولیس افسران ڈیرہ غازی خان، صوبہ پنجاب میں 28 مئی کو عبدل مجید کو ان لوگوں کے لیے، علامتی تنبیہ کے طور پر، عدالت لے جا رہی ہیں جو جرائم جن میں خواتین کے خلاف جرائم بھی شامل ہیں، میں ملوث ہیں۔ ]ڈیرہ غازی خان پولیس[

خواتین پولیس افسران ڈیرہ غازی خان، صوبہ پنجاب میں 28 مئی کو عبدل مجید کو ان لوگوں کے لیے، علامتی تنبیہ کے طور پر، عدالت لے جا رہی ہیں جو جرائم جن میں خواتین کے خلاف جرائم بھی شامل ہیں، میں ملوث ہیں۔ ]ڈیرہ غازی خان پولیس[

پشاور -- پاکستان میں خاتون پولیس افسران، زیادہ تعداد میں، قانون نافذ کرنے والے ادارے میں اعلی عہدوں تک پہنچنے سے، خواتین کی خودمختاری کا پیغام بھیج رہی ہیں۔

اگست کے پہلے ہفتے میں، عمارہ اطہر وہ اولین خاتون بن گئیں جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے عہدے تک پہنچ گئیں۔ انہیں بہاولنگر ڈسٹرکٹ، صوبہ پنجاب میں تعینات کیا گیا۔

اطہر کی پیروی ماریہ محمود نے کی اور وہ 30 اگست کو پنجاب کی پاکپتن ڈسٹرکٹ میں ڈی پی او بن گئیں۔

خیبر پختونخواہ (کے پی) میں سونیا شمروز ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں سپریٹنڈنٹ آف پولیس آپریشنز کے طور پر خدمات سر انجام دے رہی ہیں جو کہ ڈی پی او کے بعد ڈسٹرکٹ میں دوسرا سب سے سینئر عہدہ ہے۔

ایک خاتون پولیس اہلکار، 11 فروری 2015 کو نوشہرہ میں سپیشل ایلیٹ پولیس ٹریننگ کورس کے دوران بھاری مشین گن چلا رہی ہے۔ دو خاتون پولیس اہلکاروں نے اگست 2018 میں ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کا عہدہ حاصل کیا۔ ]اے مجید/ اے ایف پی[

ایک خاتون پولیس اہلکار، 11 فروری 2015 کو نوشہرہ میں سپیشل ایلیٹ پولیس ٹریننگ کورس کے دوران بھاری مشین گن چلا رہی ہے۔ دو خاتون پولیس اہلکاروں نے اگست 2018 میں ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کا عہدہ حاصل کیا۔ ]اے مجید/ اے ایف پی[

اگست میں، حکام نے دیر زیریں کی ڈسٹرکٹ میں خاتون ہیڈ کانسٹیبل رحمت جہان کو محرر (پولیس اسٹیشن کے اندر اندرونی معاملات کا سربراہ) مقرر کیا۔ ایبٹ آباد اور کوہاٹ ڈسٹرکٹس میں بھی خاتون محروروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

دیر زیریں کے ڈی پی او عارف شہباز وزیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "خاتون محرر کی تعیناتی سے ان مسائل سے نپٹنے میں مدد ملے گی جن کا سامنا خواتین کو کرنا پڑتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن میں ایک مرد افسر کی بجائے ایک خاتون افسر سے بات کرنے میں زیادہ آرام دہ محسوس کرتی ہیں"۔

'پیغام بھیجنا'

خاتون پولیس اہلکار ملک بھر میں مختلفآپریشنل ڈیوٹیوں میں بھی سرگرمی سے شرکت کر ہی ہیں۔

کے پی پولیس کے ترجمان وقار احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "خواتین پولیس افسران نے مرد ہم منصبوں کے ساتھ ایک ملزم جس کا نام ایمل خان ہے اور جس کا تعلق پشاور سے ہے، کو 21 جون کو گرفتار کیا۔ اس کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس میں اسے چترال میں کیلاش خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا"۔

سوشل میڈیا پر جاری کی جانے والی ویڈیو میں ایمل خان کو مبینہ طور پر وادی پمپوریت میں کیلاش خواتین کے اس گروہ کو ہراساں کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا جنہوں نے اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے سے انکار کیا تھا۔ حکام کے مطابق، یہ ویڈیو جولائی 2016 میں بنائی گئی تھی مگر متاثرین میں سے کسی نے بھی پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔

اس وقت چترال کے ڈی پی او، منصور امن جو کہ اب کے پی کے علاقے ہزارہ میں کام کرتے ہیں، نے گرفتاری کے وقت اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "خواتین پولیس افسران سے اس کو گرفتار کرنے کا مقصد، لوگوں تک خودمختاری کا ایک پیغام بھیجنا تھا کہ خواتین اپنے مرد ہم منصبوں جتنی ہی مضبوط ہیں اورانہیں ہراساں نہیں کیا جا سکتا" ۔

علاوہ ازیں، مئی میں پنجاب کی ڈیرہ غازی خان ڈسٹرکٹ میں پولیس نے عبدل مجید کو گرفتار کیا، جس پر اپنی بھتیجی پر تشدد کرنے کا الزام تھا۔ خاندان کے ایک فرد نے اس حملے کی فلم بندی کی تھی اور اسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا جہاں یہ پھیل گئی۔

پنجاب پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سہیل حبیب تاجک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ویڈیو کو دیکھنے کے بعد، میں نے ڈی پی او اور دیگر متعلقہ حکام کو ملزم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا"۔ اس وقت، تاجک ڈیرہ غازی خان میں ریجنل پولیس افسر کے طور پر تعینات تھے۔

تاجک نے کہا کہ "مجید کو 27 مئی کو گرفتار کیا گیا اور اسے اگلے دن چار خاتون پولیس افسران عدالت لے کر گئیں تاکہ معاشرے میں موجود خواتین سے نفرت اور مردانہ تعصب کے رجحانات کو چیلنج کیا جا سکے"۔

چار پولیس اہلکار خواتین کی طرف سے مجید کو عدالت لے جاتے ہوئے کی تصویر مشہور ہو گئی۔ ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اسے پولیس اور دیگر میدانوں میں خواتین کی خودمختاری کی ایک علامت کے طور پر دیکھا"۔

خودمختاری کی طرف قدم

مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں نے کہا کہ وہ پولیس میں خواتین کی شمولیت اور مجرموں کے خلاف ان کے حالیہ اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔

مارین لائنز فاونڈیشن (ایم ایل ایف) جو کہ چترال کے کیلاش علاقوں میں سماجی خدمات فراہم کرنے والی ایک تنظیم ہے، نے خان کی گرفتاری کے بعد کہا کہ وہ چترال پولیس اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کی کوششوں کو سراہتی ہے۔

کے پی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن شاہدہ شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "خواتین پولیس افسران خواتین کو خودمختار بنانے کی طرف اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے"۔

شاہ نے کہا کہ "خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو خواتین پولیس افسران کے ذریعے گرفتار کرنے سے نہ صرف اس معاشرتی خطرے کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ پاکستان کو مجموعی طور پر مضبوط اور مستحکم بنایا جانا ممکن ہو سکے گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500