حقوقِ نسواں

پاکستانی خاتون کوہ پیما مردوں کا غلبہ رکھنے والے کھیل میں ترقی کر رہی ہیں

عدیل سید

ثمینہ بیگ، پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سرکیا، 19 مئی 2013 کو چوٹی پر پہنچنے کے بعد، اپنے بھائی مرزا علی کے ساتھ پاکستانی جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]پاکستان یوتھ آوٹ ریچ فاونڈیشن[

ثمینہ بیگ، پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ کو سرکیا، 19 مئی 2013 کو چوٹی پر پہنچنے کے بعد، اپنے بھائی مرزا علی کے ساتھ پاکستانی جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]پاکستان یوتھ آوٹ ریچ فاونڈیشن[

پشاور -- پاکستانی خواتین بلند چوٹیوں پر کمند ڈال کر اور سماجی رکاوٹوں پر سبقت لے جا کر، کوہ پیمائی، ایک ہیجان خیز کھیل جس پر طویل عرصے سے مردوں کا غلبہ رہا ہے، میں حیران کن طور پر آگے بڑھ رہی ہیں۔

اس رجحان کا آغاز کرنے والی ثمینہ بیگ ہیں جنہوں نے پاکستانی خواتین کی کوہ پیمائی کے کھیل میں داخل ہونے پر حوصلہ افزائی کی۔ وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ انہوں نے یہ مہم 2013 میں انجام دی تھی۔

اس کے علاوہ بیگ ایسی پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے سات براعظموں جس میں انٹارٹیکا بھی شامل ہے، میں سات چوٹیاں سر کی ہیں۔ انہوں نے صرف آٹھ مہینوں میں سات چوٹیاں سر کر لی تھیں۔

بیگ نے کہا کہ انہوں نے کوہ پیمائی اپنے بھائی سے متاثر ہو کر شروع کی جنہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

عظمی یوسف، پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے 7,027 میٹر بلند ماؤنٹ سپانٹک (گولڈن پیک) کو تنہا سر کیا، کو 2017 میں پہاڑ پر دکھایا گیا ہے. ]عظمی یوسف[

عظمی یوسف، پہلی پاکستانی خاتون جنہوں نے 7,027 میٹر بلند ماؤنٹ سپانٹک (گولڈن پیک) کو تنہا سر کیا، کو 2017 میں پہاڑ پر دکھایا گیا ہے. ]عظمی یوسف[

عظمی یوسف، 2017 میں گلگت-بلتستان میں اپنی ماؤنٹ سپانٹک (گولڈن پیک) کی مہم کے دوران اپنے کیمپ کے قریب کھڑی ہیں۔ ]عظمی یوسف[

عظمی یوسف، 2017 میں گلگت-بلتستان میں اپنی ماؤنٹ سپانٹک (گولڈن پیک) کی مہم کے دوران اپنے کیمپ کے قریب کھڑی ہیں۔ ]عظمی یوسف[

خاتون کوہ پیماؤں کا ایک گروہ، جنوری 2017 میں گلگت-بلتستان میں پیر پیک کی اپنی 6,000 میٹر کی چڑھائی کو شروع کرنے سے پہلے تصویر کھنچوا رہا ہے۔ ]پاکستان یوتھ آوٹ ریچ فاونڈیشن[

خاتون کوہ پیماؤں کا ایک گروہ، جنوری 2017 میں گلگت-بلتستان میں پیر پیک کی اپنی 6,000 میٹر کی چڑھائی کو شروع کرنے سے پہلے تصویر کھنچوا رہا ہے۔ ]پاکستان یوتھ آوٹ ریچ فاونڈیشن[

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "چونکہ میرا تعلق ہنزہ وادی کے ششمال گاوں سے ہے جہاں کے رہائشی زیادہ تر کوہ پیما یا غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے قلی کے طور پر کام کرتے ہیں، اس لیے کوہ پیمائی بچپن سے ہی میرا شوق رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "میں اپنے بڑے بھائی مرزا علی سے متاثر تھی جو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ مختلف پہاڑوں کو سر کرنے کی اپنی مہمات کے قصے دہراتا تھا"۔

الپائن کلب آف پاکستان کے نائب صدر رحمت اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ثمینہ کا کردار ایسے مشعل بردار کا ہے جس کی کامیابیوں سے پاکستان کی کوہ پیمائی کی شائق خواتین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اس میدان میں آئیں اور دیگر سرمائی کھیلوں جس میں اسکینگ، پہاڑوں پر چڑھنا اور پہاڑی ٹریکنگ شامل ہیں، میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اونچی چوٹیوں کو سر کرنا شروع کریں"۔

2013 سے پہلے، پاکستانی خواتین کو کوہ پیمائی کے کھیل میں نہیں دیکھا گیا تھا مگر ایورسٹ کو سر کرنے میں بیگ کی ہمت نے دوسروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سامنے آئیں۔

رحمت اللہ نے کہا کہ "ملک بھر سے اور یہاں تک کہ غیر ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین، علاقے (ہمالیہ) میں مختلف چوٹیوں کو سر کرنے کی مہمات اور ٹریکنگ میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں اور شرکت کر رہی ہیں"۔

ٹریکنگ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی

جیو نیوز نے خبر دی ہے کہ 31 جولائی کو، چھہ پاکستانی خواتین کا ایک گروپ جس نے ہنزہ میں 5,300 میٹر کی شفکدین سر پیک کو سر کیا، اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے والی خواتین کی پہلی ٹیم بن گئی۔

یہ ٹیم جو کہ ششمال ماونٹینرنگ اسکول کی طالبات پر مشتمل تھی، نے چوٹی کو اس کے شمالی کنارے سے سر کیا۔

29 جولائی کو، تین پاکستانی نوجوان لڑکیوں نے قراقرم کے پہاڑی علاقے میں 6,080 میٹر کے ماونٹ منگل سر کو سر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

13 سالہ آمنہ حنیف، 14 سالہ مریم بشیر اور 15 سالہ صدیقہ بتول کا تعلق گلگت-بلتستان کی ہوشے وادی سے ہے اور وہ کوہ پیما لٹل کریم کی پوتیاں ہیں، جنہوں نے سفر میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ گروپ نے سفر کا آغاز 16جولائی کو کیا اور وہ 24 جولائی کو چوٹی پر پہنچ گیا۔ انہوں نے پہاڑ کو سر کرنے والے کم عمر ترین افراد کا ریکارڈ قائم کیا۔

لٹل کریم جو کہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے کوہ پیما ہیں، نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس مہم سے گلگت-بلتستان سے تعلق رکھنے والے مزید خواتین کی حوصلہ افزائی ہو کی کہ وہ کوہ پیمائی میں دلچسپی لیں۔

ایک مہنگی مہم جوئی

عظمی یوسف جو کہ تنہا 7,027 میٹر کے ماؤنٹ سپانٹک (گولڈن پیک) کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں، نے کہا کہ "نوجوانوں کو اس صحت مندانہ اور تخلیقی سرگرمی (مہم جو کھیلوں) کی طرف راغب کرنے اور انہیں اس میں شامل کرنے کے لیے سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے"۔ انہوں نے یہ چوٹی 2017 میں سر کی تھی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی یوسف جو اپنے شوہر اور دو نوجوان بیٹوں کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں، نے کہا کہ مالی اور سماجی رکاوٹوں نے اس سے پہلے انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنے سے روکے رکھا۔

مگر اپنے شوہر یوسف اختر کی مدد سے انہوں نے 2015 میں ہنزہ میں 6,050 میٹر کے ماونٹ منگلنگ سر کو تنہا سر کیا۔

یوسف اب پاکستان کی 8,000 میٹر کی آٹھ چوٹیوں میں سے ایک کو سر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جس سے انہیں کے ٹو (8,611 میٹر)، نانگاپربت (8,126 میٹر)، گیشربرم ون (8,080 میٹر)، بروڈ پیک (8,051 میٹر) اور گیشربرم ٹو (8,035 میٹر) میں سے انتخاب کرنا ہے۔

وہ کوہ پیمائی کے کلبوں سے مالی امداد یا سپانسرشپ حاصل کرنا چاہتی ہیں کیونکہ اس مہم پر3.5 ملین روپوں ( 28,000 ڈالر) کا خرچہ آنے کی توقع ہے۔

پاکستانی نوجوانوں، خواتین کو متاثر کرنا

بیگ کے ایک اور بھائی محبوب علی جو کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھنے والے پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم، پاکستان یوتھ آوٹ ریچ فاونڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ کوہ پیماؤں کو "سفر، سامان خریدنے اور سفر کے دوران خوراک اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کے لیے" سرمایہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "فاونڈیشن اور اس سے مماثل دوسرے ادارے دلچسپی رکھنے والے کوہ پیماؤں کے لیے مسلسل کیمپ لگاتے ہیں اور تربیت فراہم کرتے ہیں"۔

چترال کے ایک ٹورسٹ آپریٹر، ٹریکر اور کوہ پیما عمران سیچ نے کہا کہ "پہاڑی علاقوں، جس میں ششمال بھی شامل ہے، کے رہنے والوں میں، اس ماحول کے باعث جس میں وہ رہتے ہیں، قدرتی طور پر پہاڑ سر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہم ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درجنوں ثمینہ بیگ تیار کر سکتے ہیں"۔

غیر منافع بخش ایڈونچر فاونڈیشن پاکستان کے ایک رکن سیچ نے کہا کہ گلگت-بلتستان کے علاقے نے بڑی تعداد میں کوہ پیمائی کی خاتون شائقین کو خوش آمدید کہا ہے جو پاکستان بھر کے شہروں جن میں لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد بھی شامل ہیں، سے آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یہ ایک اچھی علامت ہے -- پاکستانی خواتین زیادہ مہم جو کھیلوں میں شرکت کر رہی ہیں۔ اب حکومت کو اس شعبہ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500