سلامتی

حقانی نیٹ ورک کے بانی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے: افغان طالبان

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

افغان کمانڈر جلال الدین حقانی (درمیان میں) کو 2 اپریل 1991 میں، میرانشاہ میں اس کے پاکستانی اڈے پر، چوٹی کے دو گوریلا کمانڈروں، امین وردک اور عبدالحق کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ طالبان کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، سائٹ پر نظر رکھنے والے گروپ نے 4 ستمبر کو بتایا کہ افغان طالبان نے حقانی کی "علالت کے ساتھ طویل جنگ کے بعد" موت کا اعلان کیا ہے۔ [زبیر میر/اے ایف پی]

افغان کمانڈر جلال الدین حقانی (درمیان میں) کو 2 اپریل 1991 میں، میرانشاہ میں اس کے پاکستانی اڈے پر، چوٹی کے دو گوریلا کمانڈروں، امین وردک اور عبدالحق کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ طالبان کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے، سائٹ پر نظر رکھنے والے گروپ نے 4 ستمبر کو بتایا کہ افغان طالبان نے حقانی کی "علالت کے ساتھ طویل جنگ کے بعد" موت کا اعلان کیا ہے۔ [زبیر میر/اے ایف پی]

کابل -- افغان طالبان نے منگل (4 ستمبر) کو اعلان کیا ہے کہ جلال الدین حقانی، جن کے نام پر ان کی بنائی گئی دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورککا نام رکھا گیا تھا، طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں۔

جلال الدین حقانی گزشتہ 40 برسوں میں افغانستان اور پاکستان کے شورش زدہ علاقے میں جہاد کو مضبوطی سے قائم کرنے میں ایک کلیدی شخصیت تھے۔

ان کی تنظیم، حقانی نیٹ ورک، خود کش بمباروں کے بھاری استعمال کے لیے معروف تھا، جو افغان شہریوں، سیکیورٹی فورسز اور امریکہ کی زیرِ قیادت نیٹو افواج کے خلاف استعمال ہوتے تھے۔

واشنگٹن طویل عرصے سے حقانی نیٹ ورک کو اولین ترجیح بناتے ہوئے، عسکری گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے اسلام آباد پر زور ڈال رہا تھا۔ اسلام آباد نے اس تنظیم کی حمایت کرنے کے الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔

بغیر تاریخ والی اس تصویر میں پاکستانی فوج کو میر علی، شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آپریشن، جو جون 2014 میں شروع ہوا تھا، میں مختلف عسکری گروہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]‎

بغیر تاریخ والی اس تصویر میں پاکستانی فوج کو میر علی، شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آپریشن، جو جون 2014 میں شروع ہوا تھا، میں مختلف عسکری گروہوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]‎

فساد، تباہ کن حملوں کی تاریخ

جلال الدین، جسے عمر کے 70 ویں یا 80 ویں پیٹے میں خیال کیا جاتا ہے، کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ مشرقی افغانستان کے لویا پکتیا علاقے میں پیدا ہوا اور بعد ازاں ہجرت کر کے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ گیا۔ اسے ابتدائی شہرت 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سویت قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے کمانڈر کے طور پر ملی۔

کئی دہائیوں تک، ذرائع ابلاغ سے شناسا جلال الدین نے عربی زبان کی مہارتوں کو عرب دہشت گرد قائدین، بشمول القائدہ کے سابق امیر اسامہ بن لادن کے ساتھ روابط قائم کرنے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا۔<

سنہ 1996 میں طالبان کے دورِ حکومت میں، وہ قبائلی امور کا وزیر بنا -- حکومت میں شامل چند بڑے مجاہدین رہنماؤں میں سے ایک -- اور وہ طالبان کے مرحوم بانی، ملا محمد عمر کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتا تھا۔

لیکن سنہ 2001 میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کی جانب سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، جلال الدین عوامی نظروں سے اوجھل ہو گیا، بعد کے برسوں میں چند ایک بار ہی سامنے آیا جب حقانی نیٹ ورک کی ہولناک ساکھ بڑھنا شروع ہوئی۔

تنظیم، جیسے سنہ 2012 میں امریکہ کی جانب سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم نامزد کیا گیا تھا، کو پورے افغانستان میں بڑے حملوں کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے اور خطے میں مصروفِ عمل بے رحم ترین عسکری گروہوں میں سے ایک ہے۔

تجزیہ کاروں کو کابل میں ہونے والے چند اعلیٰ سطحی حملوں کی پشت پر حقانی نیٹ ورک ہونے کا شبہ رہا ہے جن کی حالیہ برسوں میں ذمہ داری "دولتِ اسلامیہ" (داعش) قبول کرتی تھی۔

بہت سے بڑے حملوں میں، حقانی نیٹ ورک کو مئی 2017 میں ایک بڑے ٹرک بم دھماکے سے کابل کے قلب میں تقریباً 150 افراد کو ہلاک کرنے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے -- تاہم ایک نایاب آڈیو پیغام میں جلال الدین کے بیٹے سراج الدین نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

نیٹ ورک پر چوٹی کے افغان حکام کو قتل کرنے اور تاوان کے لیے مغربی افراد، بشمول کینیڈا کے جوشوا بوئل، اس کی امریکی بیوی، کیٹلان کولمین، اور ان کے تین بچے، جنہیں گزشتہ برس آزاد کیا گیا تھا، کو قیدی بنانے کا الزام لگتا رہا ہے۔

دہشت گردوں پر 'کوئی نمایاں اثر نہیں'

جلال الدین مبینہ طور پر کئی برسوں سے صاحبِ فراش تھا اور پہلے ہی قیادت سراج الدین کو سونپ چکا تھا، جو کہ خود بھی افغان طالبان کا نائب امیر ہے۔

حقانی خاندان نے صحافیوں کو ایک واٹس ایپ پیغام میں اپنے بزرگ کی موت کی تصدیق کی۔ یہ واضح نہیں کہ اس کا انتقال کہاں اور کب ہوا۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں اسے حالیہ برسوں میں پاکستان میں بتایا گیا تھا۔

اس کا نیٹ ورک اپنے گڑھ، شمالی وزیرستان، پاکستان کے علاقے میرانشاہ سے کارروائیاں کرتا تھا، جس میں تنظیم کے جنگجو اکثر سرحد پار کرتے اور مشرقی افغانستان میں چلے جاتے تھے۔

اس کی موت کی افواہیں پہلے بھی گردش کرتی رہی ہیں، بشمول 2015 میں پھیلنے والی اطلاعات کہ اس کا سنہ 2014 میں انتقال ہو گیا تھا، تاہم یہ پہلا موقعہ ہے کہ طالبان اور اس کے خاندان نے اس کی تصدیق کی ہے۔

جلال الدین کی موت کے اعلان کے جواب میں، اسلام آباد کے ایک مقامی صحافی، طاہر خان نے ٹویٹ کیا: "طالبان نے مجاہدین کے سابق رہنماء جلال الدین حقانی کی موت کی تصدیق کی ہے۔ اس کا سنہ 2014 میں انتقال ہو گیا تھا لیکن طالبان اور اس کے اہلِ خانہ نے اس خبر کو 4 ستمبر تک راز رکھا۔ اس سے پہلے طالبان ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ [جلال الدین] حقانی پاک-افغان سرحد کے قریب ایک فضائی حملے میں زخمی ہو گیا تھا۔"

طالبان کی جانب سے جلال الدین کے انتقال کے اعلان کا وقت بھی حیرت انگیز ہے، جو کہ بدھ (5 ستمبر) کو امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے اسلام آباد کے دورے سے قبل طالبان کی ارادوں کے متعلق اہم سوالات کھڑے کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف پشاور کے پولیٹیکل سائنٹسٹ سید حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اعلان کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ "عوامی توجہ کو پومپیو کے دورے سے ہٹایا جائے۔"

طالبان ماضی میں بھی یہ حربے استعمال کر چکے ہیں۔ جولائی 2015 میں، تنظیم نے اپنے سپریم لیڈر، ملا عمر کی موت کا اعلان کیا تھا، لیکن بعد ازاں انکشاف ہوا کہعمر دو برس پہلے ہی انتقال کر گیا تھا۔ طالبان نے ملا عمر کی موت کو راز رکھنے کا اعتراف کیا تھا۔

افغان اور پاکستانی تجزیہ کاروں نے جلال الدین کی موت کی تنظیم کی مجموعی کارروائیوں کے لیے اہمیت سے انکار کیا ہے۔

افغان وزیرِ اعظم عبداللہ عبداللہ کے ترجمان، حکمت صافی نے کہا کہ جب کوئی طالبان رہنماء مرتا ہے، تو تنظیم کے مختلف دھڑوں میں اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے پیشین گوئی کی کہ جلال الدین کی موت کے بعد بھی یہی معاملہ ہو سکتا ہے، لیکن ایسے اندرونی اختلافات کے اس صورتحال میں اہم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "[طالبان کے] مختلف گروہوں کے مابین بہت زیادہ مسئلہ یا کھینچا تانی نہیں ہو گی۔"

پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جلال الدین حقانی ایک اہم شخصیت رہا ہے، عربی زبان کا ماہر، اور اپنے اچھے دنوں میں اسامہ بن لادن اور القائدہ نیٹ ورک کے قریب تھا، لیکن حالیہ برسوں میں اس کے پاس کوئی فعال کمانڈ اینڈ کنٹرول کا کردار نہیں تھا۔"

پشاور کے پولیٹیکل سائنٹسٹ، سہروردی نے کہا کہ جلال الدین کی موت "کا [حقانی] نیٹ ورک یا افغانستان میں تحریکِ طالبان پر کوئی نمایاں اثر نہیں ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "قائدین کی اموت کا طالبان کی کارروائیوں پر اثر پڑتا ہے ۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گوریلا جنگجو دوبارہ یکجا ہو جاتے ہیں اور ایک نئے بینر یا قائد کے ماتحت کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔"

[پشاور سے محمد اہل نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Hafez Hafezullah chachar

جواب

Main samajta ho ab. Hum logo ko ye tasleem karna chahye ky. America. Or us ky paltu kutty. Mojahideen. Ko. Kabi nai. Khatam kar sakti isi ko chahye afghan mujahideen ky liye ek. General hameed gull ko kara kar dy

جواب